ڈاکٹر محمد مشتاق
1990ء کی دہائی میں عالمی سطح پر دوررس اثرات کی حامل کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
عراق نے کویت پر اگست 1990ء میں قبضہ کیا اور امریکا نے اس کے خلاف کاروائی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری حاصل کرنی چاہی تو روس اور چین اس کی مزاحمت نہیں کرسکے۔ چین تو ویسے بھی امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا تھا لیکن روس کی جانب سے عدم مزاحمت عراق کی حکومت کے لیے نہایت حیرت کا باعث بنی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ روس اندرونی طور پر انتہائی سنگین نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہوچکا تھا۔ اس کی طویل اور غیر ضروری مہم جوئیوں نے اس کی معیشت تباہ کردی تھی اور بالخصوص افغانستان کی مہم جوئی اس کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی تھی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کویت کو ”آزاد کراکے“ آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا مفہوم دیا۔
دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا اور کئی ایسی ریاستیں وجود میں آگئیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ افغانستان کی جنگ کے تربیت یافتہ جنگجوؤں نے ان ریاستوں کا رخ کیا لیکن وہاں ”اسلامی حکومت“کے قیام کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوسکا کیونکہ وہاں کی حکومتیں اس راہ میں مزاحم تھیں۔ اس دوران میں مشرقی یورپ میں بڑی کمیونسٹ ریاست یوگوسلاویا بھی شکست و ریخت کا شکار ہوگئی اور جلد ہی چار الگ ریاستوں ۔ سربیا، کروشیا، بوسنیا اور مونٹے نیگرو ۔ میں تقسیم ہوگئی۔ ان ریاستوں کی آپس میں بھی لڑائی ہوئی۔ بالخصوص بوسنیا پر سربیا کے مظالم نے ظلم و عدوان کی ایک نئی داستان رقم کی۔ افغان جنگ کی تربیت نے یہاں بھی کردار ادا کیا اور یہاں بھی آزادی کی جنگ کے ساتھ جہاد کے نعرے لگائے گئے۔
یورپی یونین نے یوگو سلاویا کی شکست و ریخت کے بعد وجود میں آئی ہوئی ریاستوں کو تسلیم کرنے کے لیے خصوصی شرائط رکھیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو خصوصی اہمیت دی گئی۔
مزیدپڑھیے: آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون، ڈاکٹر محمد مشتاق (حصہ اول)
چنانچہ یورپی یونین کے ثالثی کمیشن نے حق خود ارادیت کے حوالے سے قرار دیا کہ بعض لوگوں کو اس حق کا ”پہلا درجہ“ حاصل ہے اور بعض کو ”دوسرا درجہ“۔ پہلے درجے کے حق خود ارادیت (First Level Self-determination) سے مکمل آزادی کا حق مراد لیا گیا اور قرار دیا گیا کہ وفاقی ریاست کے صوبوں کو یہ حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ ریاست کے عناصر اربعہ حاصل کرسکتے ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ وفاقی ریاست کے صوبے کے پاس تین عناصر (زمین کا معین ٹکڑا، مستقل آبادی اور حکومت) تو پہلے ہی سے ہوتے ہیں۔ پس اسے ضرورت صرف چوتھے عنصر (دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت) کی ہوتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس چوتھے عنصر کے حصول کی راہ میں وفاقی حکومت مزاحمت کرے گی۔ پس اس طرح آزادی کے حصول کی کوشش لازماً جنگ کی صورت میں نکلے گا۔ اس میں جہاں آزادی کے حصول کی خواہشمند صوبے کی صلاحیت ضروری ہوتی ہے وہاں دوسری ریاستوں کا تعاون بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں یکطرفہ ٹریفک نہیں چلاکرتی۔ تعلقات استوار کرنے کے لیے دوطرفہ تعاون ضروری اور ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے مکمل آزادی کا یہ حق ان لوگوں کے لیے موجود ہی ہے جو غیروں کے تسلط کے تحت ہوں یاجن کے لیے سلامتی کونسل نے یہ حق تسلیم کیا ہو۔
دوسرے درجے کے حق خود ارادیت (Second Level Self-determination) سے ثالثی کمیشن کی مراد یہ تھی کہ بعض لوگوں کو مکمل آزادی کا حق تو نہیں دیا جاسکتا لیکن اندرونی خود مختاری اور مذہب و ثقافت اور شناخت کا تحفظ ان کا قانونی حق ہے۔ اس طرح اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل آزادی اور الگ ریاست کی تشکیل کے بجائے اندرونی خود مختاری کی راہ تجویز کی گئی۔
1990ء کی دہائی میں کشمیر میں حق خود ارادیت کی جد و جہد نے ”آزادی کی جنگ“ کی صورت اختیار کرلی۔ 1972ء کے شملہ معاہدے کے بعد سے بھارت کا سرکاری موقف یہ رہا کہ کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں غیر مؤثر اور غیر متعلق ہوگئیں کیونکہ اس معاہدے میں پاکستان اور بھارت نے مان لیا تھا کہ وہ تمام تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے اور کوئی فریق کسی تنازعے کو بین الاقوامی فورم پر دوسرے فریق کی مرضی کے بغیر نہیں لے جائے گا۔1990ء کی دہائی میں پاکستان کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی امن کے لیے خطرے (Threat to International Peace) کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ عالمی دباؤ کے پیش نظر بھارت مذاکرات کی میز پر آکر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش پر آمادہ ہوجائے۔ 1998ء میں جب دونوں ریاستوں نے یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کیے تو عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کی سنگینی کا احساس پیدا ہوا جسے 1999ء کی کارگل جنگ نے مزید شدید کردیا۔ تاہم کارگل کی جنگ میں پاکستان کی فوج کی حکمت عملی انتہائی حد تک ناقص تھی جس کی وجہ سے پاکستان کو فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔
1990ء کی دہائی کا ایک اور اہم مسئلہ چیچنیا کا تھا۔ وہاں بھی روسی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی جس کے جواب میں روس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے اور چنگیز و ہلاکو کی یاد تازہ کردی۔ اسی طرح البانیا اور کوسووا میں بھی غیروں کے تسلط اور ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی۔ امریکا اور اس کے اتحادی چیچنیا میں روس کے خلاف کچھ نہیں کرسکے لیکن 1998ء۔ 1999ء میں نیٹو نے سربیا پر بمباری کرکے اس کے مظالم کا سلسلہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا اگرچہ اس بمباری میں مقامی آبادی کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اور قانونی لحاظ سے بھی اس کاروائی کا جواز مشکوک تھا۔ تاہم اس کاروائی کی وجہ سے آزادی کی جنگ میں فوجی مدد فراہم کرنے کے مسئلے پر بحث کرنے والوں کو ”انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت“ کے جواز اور عدم جواز پر بھی بحث کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مزیدپڑھیں: آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون، ڈاکٹر محمد مشتاق (حصہ دوم)
ستمبر 2001ء امریکا میں رونما ہونے والے حادثات کے بعد امریکا نے ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ (Global War on Terror) شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس جنگ کے پہلے مرحلے میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کردی گئی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ اس کے بعد 2003ء میں عراق پر حملہ کرکے اس تجربے کو وہاں بھی دہرایا گیا۔دونوں ممالک میں اس قبضے کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔
دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مسلسل یہ کوشش کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی کی من پسند تعبیر جبراً پوری دنیا پر نافذ کی جائے۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی یہ ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے جد و جہد، غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جنگ کو دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے اور پچھلی پوری صدی میں بین الاقوامی قانون نے اس سلسلے میں جو پیش رفت کی اس کو کالعدم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم، جیسا کہ آگے ہم دیکھیں گے، بین الاقوامی قانون کو اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، نہ ہی اس طریقے سے غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت کے جذبے اور جد و جہد کو دبایا جاسکتا ہے۔ کئی ماہرین قانون کے نزدیک آزادی کا حق بین الاقوامی قانون کے ان بنیادی قواعد (Jus Cogens) میں شامل ہوچکا ہے جنہیں کسی معاہدے کی صریح شق کے ذریعے بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔