
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوسکتا ہےاورتشدد میں کمی کے حوالے سے ہونے والی مفاہمت پر کامیابی سےعمل درآمد کی صورت میں امریکہ اورطالبان کےمابین 29فروری کومعاہدہ ہو سکتا ہے، جبکہامریکی مذاکرات کاروں اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ایک ہفتے کے لیے ’تشدد میں کمی‘ کی جس مفاہمت پر اتفاق کیا تھا اسکا آغاز 22 فروری سے ہوچکاہےاوراٹھارہ برسوں سے جاری جھگڑے کےحوالےسے پہلی ایسی مفاہمت جوافغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات 29 فروری کو معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد شروع ہوں گے۔افغان حکومت اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیےمکمل طور پر تیارہے۔ابھی تک جو پیش رفت ہوئی ہےوہ امید افز ہےاوریہ ایک افغانوں کےلیےاہم موقع ہے جسےہاتھ سےنہیں جانےدینا چاہیے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو اتحادیوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو حملے کا ذمہ دار ٹھہرا کر طالبان حکومت سے اسامہ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ قبائلی اقدار کوعزیز ازجان رکھنے والے طالبان نے اسامہ بن لادن کو مہمان قرار دے کر حوالے کرنے سے انکار کر دیا،امریکہ نے جواب میں حملے کا اعلان کر دیا۔ ڈیڑھ لاکھ سے زاید اتحادی فوجی افغانستان میں آ گئے،طالبان اور القاعدہ قیادت روپوش ہو گئی۔ طالبان سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا،سینکڑوں طالبان کو قتل کیا گیا۔ امریکہ کی پروپیگنڈہ مشینری نے پوری دنیا میں طالبان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا۔کچھ برس بعد طالبان نے خود کو دوبارہ منظم کیااور اتحادی افواج کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے۔سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے2014ء میں انخلا کا اعلان کیا لیکن وہ اسکے لئے موثر انتظام نہ کر پائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئےاور ایک بار پھر افغانستان میں فوجی دستوں کی تعداد بڑھا دی تاہم انہیں جلد اندازہ ہو گیا کہ افغان جنگ امریکی معیشت کو تباہی کے دہانے تک لے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2018ء میں طالبان سے امن معاہدے کے امکانات پر کام شروع کیا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو جس طرح جبراً دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنااتحادی بنایا وہ ایک ناخوشگوار تجربہ تھا۔ بھارت نے امریکہ کو انٹیلی جنس معاونت فراہم کی اورپاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ صدر ٹرمپ کو انخلاء کی منصوبہ بندی کے لئے مدد کی ضرورت پڑی تو ایک بار پھر پاکستان یاد آ گیا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کی ڈیل افغان حکومت کروا سکی نہ بھارت امریکہ کی مدد کر سکا۔اس دوران طالبان نے دوبارہ افغانستان کے پچاس فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا،جوامریکہ کی بے بسی عبرت کا نمونہ ہے۔ امریکہ نے پاکستان سے مدد کی درخواست کی ‘کھربوں ڈالر خرچ کرنےاور ہزاروں فوجی مروانے کےبعدامریکہ نے آخر طالبان کی شرائط تسلیم کرتے ہوئےافغانستان سے انخلا کا معاہدہ طےپانے کااعلان کیاہے۔ افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے پاکستان چالیس برس سے قربانی کا بکرا بنا ہوا ہے۔دونوں فریق ایک دوسرے کے قیدی رہا کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں۔افغانستان کی صورت حال نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا ہے۔پاکستان کے پرامن ماحول میں اسلحہ،منشیات،لاکھوں پناہ گزین اور سماج میں پرتشدد رویوں کا ظہور افغان تنازع کی دین ہیں۔
افغانستان پرامریکہ اوراسکے اتحادیوں کیجانب سےکسی ٹھوس ثبوت اور اطمینان بخش جواز کے بغیر فوج کشی اور اسکے جواب میں شروع ہونےوالی ناقابل شکست مزاحمت نے پورے خطے کو پچھلے دو عشروں کے دوران مسلسل بدامنی کاشکار بنائے رکھا۔ تاہم بعد از خرابی بسیار چند ماہ پہلے موجودہ امریکی حکومت نے صورت حال کے فوجی کے بجائے سیاسی حل کا ہوشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنی افواج کی واپسی کے لیے افغان مزاحمت کومنظم کرنے والی تحریک طالبان کی قیادت کے ساتھ سنجیدہ اور بامقصد بات چیت کا راستہ اختیار کیا۔اسکے نتیجے میں امریکی افواج کی واپسی اور قیام امن کے لیے طالبان قیادت اور امریکی حکومت کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہوگی۔اس مقصد کی خاطر سازگار ماحول تشکیل دینے کے لیے طالبان کی جانب سے رواں ہفتے کے دوران مسلح کارروائیوں میں شدت سے گریز پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ معاہدہ ہوگیا تو بارہ ہزار سے زائد امریکی افواج میں سے تقریباً نصف کی واپسی جلد عمل میں آجائے گی۔
افغان قومی سلامتی کونسل کے مطابق اگر طالبان کی جانب سے ایک ہفتے تک ’’ تشدد میں کمی‘‘ کی یقین دہانی پر عمل کیا گیا توافغان حکومت طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کردے گی۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی بھی چند روز پہلے طالبان امریکہ معاہدے کی کامیابی کی ضرورت کا اظہار کرچکے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس بار وہ تحفظات لاحق نہیں جنکا نہایت جارحانہ اظہار انہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں کیا تھا جب طالبان اور امریکہ معاہدے پر دستخط کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن پھر صدر ٹرمپ نے اچانک مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کردیا تھا۔اس معاہدے سے جہاں امریکہ افغانستان میں اپنی طویل جنگ کو اختتام دے سکے گا وہیں افغان حکومت کے لیے اسکے بعد کٹھن فیصلے ہوںگے۔
گذشتہ برسوں کے دوران کئی مرتبہ امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی بات ہوچکی ہے۔ انکا مقصد امریکی فوج کےانخلا کے بدلے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغان سر زمین پر غیر ملکی انتہا پسندوں کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یہ ممکنہ معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات جبکہ امریکہ کے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کی راہ ہموار کرے گا۔یہ معاہدہ امریکہ، افغانستان، ٹرمپ انتظامیہ اور خطے کی صورتحال کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔اس معاہدے سے ممکنہ طور پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوگا جبکہ امریکہ کے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کی راہ ہموار ہو گی۔اسکے نتیجے میں امریکہ کی سب سے لمبے عرصے تک چلنے والی جنگ شاید ختم ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ اس سے رواں سال امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی فوجیوں کو گھر واپس لانے کا اپنا وعدہ وفا کر سکیں گے۔
افغانستان میں انتخابات کے نتائج کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے جن میں اشرف غنی کامیاب رہے۔اشرف غنی کے مخالف عبداللہ عبداللہ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت قائم کریں گے۔ مگر کیا طالبان ان انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے؟ اور ایسی کسی بھی صورتحال کے پیدا ہونے سے امریکہ کا کیا رد عمل ہو سکتا ہے؟صدر اشرف غنی نے چند روز پہلے کہا تھا کہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے۔سنہ 2001 میں امریکی سربراہی میں ایک بین الاقوامی اتحاد نے طالبان کی حکومت کو 9/11 کی ذمہ دار تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے کی الزام میں ہٹا دیا تھا۔تاہم فی الحال یہ ظاہر نہیں کہ کیا افغانستان کے لیے یہ ایک جامع امن معاہدہ ہو گااور پورےملک پر اسکااطلاق ہوگا یا یہ صرف ایک ایسا معاہدہ ہو گا جو امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا موقع فراہم کرے گا۔اسطرح امریکہ کی سب سے لمبے عرصے تک چلنے والی جنگ شاید ختم ہو جائےاور دوبارہ اہم صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے صدر ٹرمپ امریکی فوجیوں کو گھر واپس لانے کا اپنا وعدہ وفا کر سکیں۔
امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بہت کچھ داؤ پر ہے۔ لیکن امریکہ سے زیادہ چیزیں افغانستان کے لیے داؤ پر لگی ہیں۔افغانستان کا تو پورا کا پورا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان میں کس طرز کی حکومت کی بلآخر فتح ہوتی ہے،لیکن کیا افغانستان کے لیے یہ ایک جامع امن معاہدہ ہو گا اور پورے ملک پر اس کا اطلاق ہوگا؟یا یہ صرف ایک ایسا معاہدہ ہو گا جو امریکیوں کو افغانستان سے نکلنے کا موقع فراہم کرے گا؟دونوں آپشنز ہو سکتی ہیں۔لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکی اس معاہدے کا استعمال وہاں سے نکلنے کے لیے کریں بجائے اسکے کہ افغانستان کو ایک کامل امن ڈیل ملے۔بظاہر لگتا ہے کہ مذاکرات انتہائی تفصیلی ہیں۔امریکہ اورطالبان کےدرمیان ایک مواصلاتی نظام ہوگاجسمیں پورے عمل کے دوران نگرانی اور توثیق کی شقیں موجود ہیں۔طویل مدت میںطالبان اورافغان حکومت کے مابین مذاکرات مستقل اور جامع جنگ بندی کے موضوع سے شروع ہوں گے۔بظاہر سب ٹھیک لگ رہا ہے لیکنابھی تک یہ بات مکمل طور پر واضع نہیں ہے کہ امریکہ کس سے بات کر رہا ہےاورامریکہ جن سے بات کر رہا ہے کیا وہ تمام طالبان کی نمائندگی کرتے ہیں یانہیں۔افغانستان میں طرح طرح کے ہتھیاروں سے لیس گروہ ہیں جو کسی بھی وقت مصیبت کھڑی کر سکتے ہیں۔ابھی تک یہ بھی واضع نہیں ہے کہ اس امن عمل میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ امریکی فوجوں کا انخلا کس رفتار سے ہو گا اوراسکا کیا تسلسل ہو گا؟کیا افغانستان میں کچھ بچی کچھی امریکی فوجیں رہیں گی؟امید کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ایسی کسی فوج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیاامریکی حکامپر یقین کیا جا سکتا ہے؟اور ایک بار جب امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا تو کیا وہ افغانستان میں کسی وسیع تر معاہدے کا احترام کریں گے؟
دنیا کو جنگ و جدل اور خوں ریزی سے پاک دیکھنے کے آرزومند ہر شخص کے لیے بلاشبہ یہ ایک تاریخ ساز خوش خبری ہے بشرطے کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد مختلف افغان گروپوں کے درمیان باہمی خوں ریزی جاری رہنے کے خدشات کا مکمل سدباب بھی یقینی بنایا جائے جسکے تباہ کن مظاہر پچھلی صدی کے آخری عشروں میں سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد دنیا دیکھ چکی ہے۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت طالبان امریکہ معاہدہ طے پاجانےکےبعد شروع ہوگی لیکن طالبان امریکہ معاہدے کےحوالےسے یہ بات واضح نہیں کہ یہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے کوئی جامع معاہدہ ہوگااوراس میں مستقبل کے نظام کے لیےافغان گروپوں کے درمیان بات چیت کو کامیاب بنانے کی تدابیر بھی شامل ہوں گی یابنیادی طور پراسکا مقصد صرف امریکی افواج کی محفوظ واپسی کویقینی بنانا ہوگا۔
امریکی تجزیہ کاروں کو ڈر ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر فوجیں افغانستان سے نکالنے میں جلد بازی کر رہے ہیں،کچھ کو افسوس ہو گا کہ سب سے لمبے دورانیے تک چلنے والی جنگی مہم کے ختم ہونےکےامکانات نظر آ رہے ہیں۔لیکنیہ شاہد امریکی انخلا کی ‘ویتنامائزیشن’ ہے یعنی کہ 1950 کی دہائی میں ویتنام جنگ کو ختم کرنے میںبہت سی علامتیں ایسی ہیں جن سے واضع ہوتا ہے کہ یہ امن کی کوشش بھی امریکی انخلا کو ویسا ہی سیاسی رنگ دے گی جیسے امریکہ نےامن معاہدےکے نام پر ویتنام کے ساتھ معاملات نمٹائے تھے۔امریکہ اور طالبان اگر اس ابتدائی معاہدے کے پابند رہے تو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا حتمی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔امریکی ارادوں کو ناقابل اعتبار قرار دینے والے طالبان اب بھی امریکی وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔
پاکستان نے طالبان کو امن معاہدے پر راضی کر کے خطے اور عالمی امن کو تحفظ دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے امن دستوں کی کارکردگی اور کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستان نے ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان کی ان مساعی کے جواب میں عالمی برادری کو مثبت ردعمل دینا ہو گا،خصوصاً ایف اے ٹی ایف پرافغان تنازع کو پرامن انداز میں طے کرنے کے لئے پاکستان کا کردار بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس ستائش سے محروم ہے جسکا پاکستان حقدار ہے۔پاکستان کا حق بنتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہونےکے ثمرات سب سے زیادہ اسے ملیں۔پاکستان کی مسلح افواج،منصوبہ بندی کمشن، اکنامک ڈویژن اورسٹریٹجک فوائد پر کام کرنے والے اداروں کووقت ضائع کئے بغیر پرامن افغانستان سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے۔
تاریخ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کریں اوران امکانات کوہاتھ سے نہ جانے دیں جنکے ذریعے پاکستان بہت سی مشکلات ختم کر سکتا ہے۔امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والاامن معاہدہ خطے میں طاقت کا نیا توازن پیدا کر رہا ہے۔سی پیک منصوبہ اب زیادہ نمایاں رفتار سے آگے بڑھ کر خطے کے داخلی تنازعات کو حل کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ افغان طالبان کو توقع ہے کہ اس مہینے کے آخر تک عالمی ضامنوں کی موجودگی میں امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے جسکے نتیجے میں افغانستان میں جاری 18 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔معاہدے پر دستخط ہونے کے فوراً بعد امریکہ اورافغانستان 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کر دیں گےجبکہ اسکے جواب میں طالبان اپنی حراست میں موجود تقریباً ایک ہزار قیدی چھوڑیں گے۔توقع ہے کہ تمام متعلقہ فریق قیام امن کے اس موقع کا درست استعمال کرتے ہوئےافغانستان میں پائیدارامن کی خاطر مستقل اورمتفقہ سیاسی نظام کا اہتمام کریں گے۔ اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر محال ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے یہ امریکہ کی ناگزیر ذمہ داری بھی ہے لہٰذا صدر ٹرمپ کو اپنے دورہ بھارت میں اس سمت میں مؤثر پیش رفت کو بھی یقینی بنانا چاہیے!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔