
کنکریاں-کاشف مرزا
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 1989 سے 2018 تک 94,644 کشمیری قتل کئے گئے، بھارتی افواج نے 11,042 عورتوں کی اجتماعی عصمت دری اور ہزاروں جوانوں کو بینائی سے محروم کیاہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی حراست اور جبری ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے، 2018 میں 160 لوگوں کو شہید اور 1253 کو نابینا کیا گیا، بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے جس پر شدید تشویش ہے۔رواں سال کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر دو رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔ 560صفحات پر مشتمل پہلی رپورٹ جموں کشمیر میں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن اور کولیشن آف سول سوسائٹی کے باہمی اشتراک سے بنائی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا ٹائیٹل ہے Torture: Indian State’s Instrument of Control in Indian Administered Jammu and Kashmir.” دوسری رپوٹ 43صفحات پر مشتمل ہے جسے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے مرتب کیا ہے۔ دونوں رپورٹوں میں کشمیر یوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی طرف سے کئے جانے والے تشدد کا ذکر ہے۔
دونوں رپورٹوں میں احتجاج کنٹرول کرنے کے لئے انڈین سکیورٹی فورسز کا پیلٹ گن کا مسلسل استعمال ،ماضی میں انسانی حقوق کو پامال کئے جانے والے واقعات کو مکمل طور پر فراموش کرنا، خاص طور پر جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے کوانڈین فورسز کی طرف سے جنسی تشدد،سرچ آپریشن کے دوران تشدد کا استعمال اور اسکے نتیجے میں عام شہریوں کی اموات کا واقع ہونا،احتساب کے راستے میں حائل جموں کشمیر سپیشل پاور ایکٹ،پبلک سیفٹی ایکٹ میں ترمیم کی درخواست جسکے تحت کسی بھی شخص کا بغیر کسی چارج کے دو سال تک ٹرائل کیا جاسکتا ہے،پبلک سیفٹی ایکٹ کے سیکشن 10 کے بعد کشمیریوں پر مقدمے کشمیر سے باہر بھی چلائے جارہے ہیں۔ جسکی وجہ سے نہ صر ف ملزمان بلکہ ان کے خاندان والوں اور وکلاء کو بھی تکلیف کا سامنا ہے، جیل میں مسلمانوں پر سخت تشدد کیا جاتا ہے اورقیدیوں کو زبردستی گندگی ، پاخانہ ، لال مرچ کھانے ، پیٹرول، پیشاب اور گندہ پانی پینے پر مجبور کئے جانے جیسے مشترکہ احوال شامل ہیں۔کشمیر میں تشدد کو ایک بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔اسکی ایک جھلک ان اعدادوشمار میں نظر آتی ہے۔شہریوں کے قتل کی وارداتوں میں روزاضافہ ہو رہا ہے۔ صر ف گزشتہ سال586 لوگوں کا قتل کیا گیا جن میں 160 عام شہری تھے۔ ڈاکٹر ودآؤٹ بارڈر کی تحقیق کے مطابق 2015 میں تقربیاً 19 فیصد آبادی ذ ہنی دباؤ کا شکار تھی ۔اقوام متحدہ کی انسداد برائے تشدد کنونشن کے دستخط کنندہ ہونے کے باوجود انڈیا نے اسے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ۔انڈیا نے 2010میں ٹارچر سے بچاؤ کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا لیکن 2014 میں بالآخر اسے ڈراپ کر دیا گیا۔
بھارت میں فوج کےتحت مؤثر طور پر زیر کنٹرول علاقوں میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں ہوتی ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، تشدد کے واقعات، پولیس کی حراست میں خواتین کی عصمت دری، گرفتاریاں اور حراست، قید خانوں کی سخت اورخطرناک صورت حال اور مختلف ریاستوں میں سیاسی قیدیوں کے واقعات نمایاں رہے۔ اسکے علاوہ سینسرشپ اور سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کرنے کے اقدامات تشویش کا باعث رہے۔ بھارتی حکومت نے بعض غیر ملکی این جی اوز کی فنڈنگ پر یہ کہتے ہوئے پابندیاں عائد کر دیں کہ اُنکے اقدامات بھارت کے قومی مفاد کے منافی ہیں۔ ایسی این جی اوز کو یا تو کام کرنے سے روک دیا گیا یا اُنکی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں۔جموں و کشمیر، شمال مشرقی ریاستوں اور ماؤ نوازوں کے زیر اثر علاقوں میں پولیس،مسلح افواج اور سرکاری اہلکاروں کی کی طرف سے زیادتیاں جاری رہیں۔
دوسری طرف اسرائیل کی فلسطینی علاقوں پر قبضے کی اشتہامسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔صہیونی ریاست فلسطینی قوم کا حق خود ارادیت سلب کر کے انکی اراضی پر غاصبانہ قبضے کا غیر قانونی سلسلہ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔امریکا کے امن منصوبے “صدی کی ڈیل”فلسطینی قوم اور عالم اسلام فلسطینیوں کے لیے کوئی غیر منصفانہ منصوبہ قبول نہیں کرے گا۔صدی کی ڈیل کا ہدف فلسطینی ریاست کا خاتمہ اور دنیا کو خون سے غرق کرنا ہے۔اسرائیل کہاں ہے؟ اسکی سرحدیں کہاں شروع اور کہاں ختم ہوتی ہیں۔ اس میں کون کون سے علاقے شامل ہیں۔ سنہ 1947ء کے بعد سے اب تک فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔سنہ1947ء میں صرف فلسطین کے نام سے یہ علاقہ جانا جاتا تھا۔اس پراسرائیلی ریاست کا قیام کیسےعمل میں لایا گیا۔یہ پوری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔سنہ 1948ء میں فلسطین میں ایک غیرقانونی ریاست اسرائیل قائم کی گئی،اور سنہ 1967ء میں اس علاقے میں مزید توسیع کی گئی۔آج فلسطینی مملکت کا کوئی وجود نہیں،گویا فلسطینی مملکت تھی ہی نہیں۔1967کی سرحدوں کے اندر مشرقی بیت المقدس کے دارالحکومت پر مشتمل فلسطینی ریاست قائم کی جانی چاہیے۔اقوام متحدہ نےاسرائیل کے خلاف کئی قراردادیں منظور کیں مگران پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔اقوام متحدہ کا کیا کردار ہے۔ اگر ان قراردادوں پر عملدر آمد نہ کیا گیااورمظلوم کو انصاف نہیں دیا جاتا تواس ادارے کی کیا حیثیت ہے۔دنیا فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاستی دہشت گردی پر خاموش تماشائی ہے۔ چند روز قبل بیت المقدس میں قلندیا چوکی پر اسرائیلی فوجیوں نے ایک نہتی فلسطینی خاتون کو یہ جان کرگولیاں ماریں کہ اسکے پاس کوئی اسلحہ نہیں،وہ چاہتے تو اسے پکڑ بھی سکتے تھے مگر فلسطینیوں کی نسل کشی اسرائیلی ریاست کا وطیرہ بن چکی ہے۔اس پرعالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
چین میں سن 2018 کے دوران صوبہ شنکیانگ میں اقلیتی مسلمان یغور برادری کے لوگوں کی حراستوں اور اُنکے ساتھ زیادتیوں کے واقعات شدت اختیار کر گئے۔اس سلسلے میں یغور مسلمان، نسلی قازق افراد اور دیگر مسلمانوں کی 800,000 سے 20 لاکھ تک افراد کی گرفتاریوں کا حوالہ دیا جاتاہے جنہیں مبینہ طور پر اُنکی مذہبی اور نسلی شناخت ختم کرنے کے لئے حراستی کیمپوں میں رکھا گیا۔چین کے سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ دہشت گردی،علیحدگی پسندی اور انتہاپسندی کو روکنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔تاہم بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اوران کیمپوں میں زیر حراست افراد نے بتایا ہے کہ وہاں لوگوں کے ساتھ نہ صرف تشدد روا رکھا جاتا ہے بلکہ اُن میں سے کچھ کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔
نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ کے دوران جنگی زونز میں براہ راست 8؍ لاکھ ایک ہزار افرادہلاک ہوئے ،اس جنگ پر لاگت کا تخمینہ 992184 ارب روپے سے زائد یعنی6 عشاریہ 4ٹریلین ڈالر کا ہے ۔ بلواسطہ اموات 31؍ لاکھ سے زائد جو افغانستان ، عراق ، شام ، پاکستان اور یمن میں ہوئیں۔ جبکہ ان جنگوں کے نتیجے میں براہ راست اور بلواسطہذخمییوں ومعذوروں کی تعداد 3کڑوڑ 89لاکھ سے زائد ہیں جو افغانستان ، عراق ، شام ، پاکستان اور یمن میں ہوئیں۔امریکی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر دہشت گردی کے حملوں کے بعد شروع کی تھی۔’’ ہیومن کاسٹ آف پوسٹ نائین الیون وار‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جنگی زونز میں براہ راست ہلاکتوں کے علاوہ شہریوں ، انسانی حقوق اور غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنوں ، صحافیوں اور میڈیا ورکروں ، امریکی فوجی ، محکمہ دفاع کے سویلین اور کنٹریکٹرز ، اور قومی و فوجی پولیس فورسز اور دیگر اتحادی افواج اور مخالفین جنگجو کی اموات شامل ہیں۔رپورٹ میں ہلاکتوں کو چھ زمروں میں تقسیم کیا گیاجن میں افغانستان ، پاکستان ، عراق ، شام یا داعش ، یمن اور دیگر شامل ہیں۔ تمام زمروں میں سویلین اموات کا تناسب سب سے زیادہ ہے یعنی336فی صد یا کل اموات کا 42 فیصد۔ تاہم اس رپورٹ میں جنگ کے نتیجے میں فاقہ کشی ، پانی کی کمی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی وجہ سے بیماریوں سے ہونے والی بالواسطہ اموات کو شامل نہیں کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بالواسطہ اموات کا تخمینہ براہ راست اموات سے چار گنا زیادہ ہے ،اس حساب سے نائن الیون کے بعد افغانستان ، عراق ، شام ، پاکستان اور یمن میں ہلاکتوں کی تعداد 31لاکھ سے زائد ہے یعنی امریکی ہلاکتوں سے دو سو گنا زیادہ ہے۔ نائن الیون کے بعدہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ جاری ہے ، نہ صرف اس وجہ سے کہ بہت ساری جنگیں جاری ہیں ، بلکہ اس لئے بھی کہ فوجیوں کی گھر واپسی کے باوجود جنگیں ختم نہیں ہوتیں۔
امریکہ آج جنگوں پر کم خرچ کر رہا ہے ، اسکے مالی اثرات ابھی بھی اتنے ہی خراب ہیں جتنے دس سال قبل تھے ۔امریکا کے ان جنگوں اور ملکی سطح میں دہشت گردی کے خلاف تحریکوں پر خاصے اخراجات ہوئے جو خسارے کے اخراجات کے ذریعہ ادا کیے گئے ہیں۔اگر امریکہ مالی سال 2020 کے اختتام تک بڑے جنگی زونز سے مکمل طور پر دستبردار ہوجاتا ہےاورعالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگوں کا سلسلہ بند ہوبھی جاتا ہے،تو بھی جنگوں کا مجموعی بجٹ بڑھتا ہی رہے گا کیونکہ امریکہ سابق فوجیوں کی دیکھ بھال اورقرض پر سود کی ادائیگی کررہا ہے ۔
پاکستان کی فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے اقدامات جاری رکھے ہیں،لیکن استعماری طاقتیں اسے ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں مگر عالمی ضمیر گہری نیند سویا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق ایک جامع خارجہ اور تجارتی پالیسی بناتے وقت متعلقہ ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کو سامنے رکھا جانا چاہیے،جسکی بنیادشہریوں کی آزادی واحترام، آزادئ اظہار، پرامن اجتماع کی آزادی، مذہبی آزادی، سیاسی عمل میں عام لوگوں کی شرکت، بدعنوانی،انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف حکومتوں کےاقدامات، نسلی اور مذہبی امتیاز، جبری مشقت اورانصاف کی فراہمی کی صورت حال کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔لیکنحقیقت یہ ہے کہ آج بھی ایک ہی جنگل کاقانون رائج ہے اور وہ ہے”Might is Always Right“!