وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے فنانس بل 2020-2019 منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔
اسلام آباد: حزب اختلاف کی جانب سے جمع کرائی گئی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ بل کی منظوری کے موقع پر حکومت کے 178 اور اپوزیشن کے 147 ارکان ایوان میں موجود تھے۔ فنانس بل کی شق وار منظوری کے عمل میں بی این پی مینگل کے تین ارکان آغا حسن بلوچ، ہاشم خان نوتیزئی اور ڈاکٹر شہناز نصیر بلوچ نے حکومت کو ووٹ دیا، بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اخترجان مینگل ایوان میں موجود نہیں تھے۔
ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ آج فنانس بل کی منظوری کا دن ہے،آج وزیرستان کے دو ارکان کو موجود ہونا چاہئے تھا۔ اپوزیشن کے بار بار مطالبے کے باوجود محسن داوڑ اورعلی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اتنے اہم دن ان ارکان کا موجود نہ ہونا ہم سب کے لئے شرم کی بات ہے۔ ایوان مکمل نہیں ہے، آج وہ دو موجود نہیں کل کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔
سید نوید قمر نے کہا کہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ پچھلے ایک سال میں آپ کی ٹیکسیشن میشنری کی کارکردگی کیا رہی؟اور آپ اب بھی ان پر انحصار کرنے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری ختم ہو چکی ہے، اگر سرمایہ کاری نہیں رہی تو ٹیکس وصولی میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا۔ اگر آپ بزنس مین کے پیچھے ایف آئی اے اور نیب کولگا دیں گے تو پھر آپ کیسے ٹیکس اکھٹا کر سکتے ہیں؟
سید نوید قمر نے کہا کہ کمیشن بنانے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ملے ، آپ کو ہتا چلے گا کہ ٹیکس ریونیو میں شارٹ فال کیوں آیا؟ جتنی ناکامی اس سال آپ نے دیکھی ہے وہی اگلے سال دیکھنے کو ملے گی۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ آپ کی کیپٹئل مارکیٹ ہے،اگر ایف بی آر کا مطلب یہ ہے کہ ائر کنڈیشنر آفسز میں بیٹھ کے صرف ٹیکس کاٹنا ہے تو پھر وہ اتنی تنخوائیں کیوں لے رہے ہیں؟
سید نوید قمر نے کہا حکومت نے ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کے ذریعے ہر بندے کے بجٹ کو بڑھا دیا ہے،یہ مسئلہ آپ کا ہے آپ ایسا ماحول بنا رہے ہیں کہ لوگ سڑکوں پر آ جائیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدراور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم اس عوام دشمن بجٹ کو مسترد کرتے ہیں،میں اس بجٹ کو سلیکٹڈ بجٹ نہیں کہہ سکتا،مگر پاکستان کے عوام اسے سلیکٹڈ کہتے ہیں میں کچھ نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مشکل قرضے نہیں آپ کی نا اہلی ہے،پاکستان کی مشکل وہ بوجھ ہے جو آپ نے دس مہینوں میں ڈالاہے، میرے اعداد و شمار کو غلط ثابت کرکے دکھائیں۔
شاہد خاقان عباسی کے چیلنج پر حماد اظہر کھڑے ہوئے تو شاہد خاقان عباسی نے کہا ان کے والد صاحب میرے دوست تھے اور ہیں، وہ سچ بولا کرتے تھے۔میں جھوٹ بولنے والے کی عزت نہیں کر سکتا۔
ایوان میں شورشرابا شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر نے ارکان کو خاموش کرایا۔
اسی دوران مرتضی جاوید عباسی اور شہریار آفریدی میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ شور شرابہ حماد اظہر کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کے اعداد و شمار کو جھوٹ کہنے پر شروع ہوا۔
جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہے، حماد اظہر
حماد اظہر نے کھڑے ہوکر کہا جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہے، یقین سے کہہ سکتا ہوں شاہد خاقان عباسی نے بجٹ پڑھا ہی نہیں۔
شاہد خاقان عباسی جواب دینے کے لیئے کھڑے ہو ئے تو ڈپٹی اسپیکر نے شاہد خاقان عباسی کو فلور دینے سے گریز کیااور کہا آپ کو بات کرنے کا پورا موقع ملا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک کا وزیراعظم خود کہے کہ ہماری معیشت بنکرپٹ ہے تو پھر اس کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہ اینٹی گروتھ بجٹ ہے، جو بے روزگاری لائے گا، مہنگائی لائے گا۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم آفس کا خرچ 1 ارب سے زائد کردیا گیاہے۔ بتائیں آپ نے کونسی کٹوتی بجٹ میں کی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ
ہمارے وزیر اعظم کا چناؤ کہیں اور ہوا وہ حکمرانی یہاں کررہے ہیں،ڈیفنس پروڈکشن میں چھپا کر وزیراعظم کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر کا کروڑوں روپے رکھا گیا ہے۔
احسن اقبال نے کہا ایک طرف اسپیشل سیکرٹریز کی تنخواہوں میں اضافہ اور غریب سرکاری ملازم کی تنخواہ کم کردی گئی ہے۔ آپ لوگوں کے لئے گھی، چینی پر ٹیکس لگا کر جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ تعلیم کے بجٹ میں کٹ لگادیا گیا، پرائمری، پری پرائمری اور ہائر ایجوکیشن بجٹ میں کٹ لگا دیا گیا ہے۔ہم زرعی ملک ہیں، مگر افسوس کسان کے لیے کوئی ریلیف نہیں رکھا گیا۔
احسن اقبال نے کہا کہ یہ بجٹ عوام دشمن، غریب دشمن، تعلیم دشمن، سلیکٹڈ بجٹ سے غربت بڑھے گی، اسے واپس لیا جائے۔
سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ حکومت نے روزمرہ استعمال کی ہر چیز مہنگی کر دی ہے،پھر بھی یہ دعوی ہے کہ بہترین بجٹ پیش کیا ہے۔ چیزوں کی قیمتوں کا چند ماہ پہلے والی قیمتوں سے تقابل کر لیں تو پتہ لگے گا کہ حکومت نے غریب کو زندہ درگور کر دیا ہے۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت 1947 میں آتی تو یہ کہتے کہ انگریز نے سب تباہ کر کے ملک حوالے کیا۔ہم نے اپنے نظام اور پارلیمان کو کیوں بے توقیر کرنے کی ٹھان رکھی ہے؟ سیاسی حکومتوں کا احتساب ایک پولیس والا کرے گا؟
انہوں نے کہا کہ اگر احتساب ہی کرنا تھا تو ایوان کی ایک کمیٹی بنا لیتے۔آج بجٹ منظور ہونا ضروری نہیں ہے، ہمیں عوام کے مفاد میں بجٹ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے ملازمین، پنشنرز اور عوام دوست بجٹ لانا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اپوزیشن نے اپنے اجلاس میں ایوان میں بجٹ کے خلاف سخت احتجاج کا فیصلہ کیا۔ ایوان میں کالی پٹیاں باندھ کر شریک ہونے کا فیصلہ بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں کیا گیا۔
ذرائع کا کہناہے کہ بجٹ کی منظوری کے وقت اپوزیشن کا ایوان میں بجٹ مخالف نعرے بازی کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ حکومت کے ہر لفظ پر بجٹ ریجیکٹڈ کے نعرے لگائے جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آج ایوان میں عوام کی آواز بننا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔