تحریر: عزیز اللہ خان ایڈوکیٹ
بول نیوز چینل کے پروگرام “تبدیلی “میں اینکر پرسن امیرعباس نے جب سابق آئی جی موٹر وے ظفر عباس لک جو psp آفیسر ہیں سے سوال کیا گیاکہ “رینکر پولیس ملازمین جو صحیح معنوں میں فیلڈمیں کام کرتے ہیں مگر psp افسران کا رویہ ان سے اچھا نہیں ہوتا یہ psp افسران ماتحت ملازمین کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ان کی بے عزتی بھی کرتے ہیں
ان کو سزائیں بھی ملتی ہیں مگر آج تک کبھی کسی پی ایس پی افسر کو آپ نے بطور آئی جی سزا دی ہے ؟؟یا اسکی تنزلی کی ہے ؟؟
اس پر آئی جی ظفرعباس لک بولے کہ” ان کو سزا صرف وزیراعظم دے سکتا ہے ۔ہم صرف ان کے خلاف لکھ کر وزیراعظم کو بھجواتے ہیں اور سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ان کےخلاف کاروائی کرتا ہے “انکی سزا ہمارے اختیار میں نہیں جس پر اینکر پرسن نے سوال کیا کہ “وہ بھی تو csp افسران ہوتے ہیں ” تو اس کا جواب ہاں میں تھا جبکہ باقی سوالوں کے جواب اُن کے پاس نہ تھے
اگر کسی پی ایس پی افسر نے کوئی غلط کام کیا ہے یا اس نے کرپشن کی ہے تو اس پر کاروائی کا ایک لمبا طریقہ کار ہے جو کے آسانی سے مینج کیا جاسکتا ہے دوسرے لفظوں میں ان pspافسران کو سزا دینا یا ان کی کرپشن کو چیک کرنا بہت مشکل ہے یہ سارے ایک دوسر ے کے بھائی بھائی ہیں جب بھی ان پر کوئی مشکل وقت آتا ہے توسیاست دانوں کی طرح ایک دوسرے کو بچانے میں کی کوشش کرتے ہیں
مجھے کُچھ ریٹائرڈ افسران اور ملازمین کے فون بھی آئے جن سے مجھے معلوم ہوا کہ نیب اور دیگر فورم پر کُچھ psp افسران کے خلاف کرپشن کی انکوئیریاں ہو رہی ہیں مگر اُن کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا انکوائیری افسران ان کے خلاف لکھنے کو تیار نہیں بلکہ درخواست دہندہ کو دھمکیں دی جاتی ہیں کہ صُلح کر لو؟
مجھے کُچھ آڈٹس رپورٹسں بھی ملیں جو چیف ٹریفک آفیسر فیصل آباد کے آفس کی ہیں 2014تا 2015 تک کی ان رپورٹس میں آڈیٹر نے ان میں مختلف اکاونٹس کی مدمیں کڑوڑوں کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے ۔ ایک رپوٹ میں آڈٹ آفیسر لکھتا ہے جب صرف ایم ٹی او کی 12 گاڑیوں کی پڑتال گئ تو ان کی” لاک بک ” میں چالیس لاکھ چھتیس ہزار نوسو چھاسی روپے (4036986)کاغبن تھا جبکہ ایم ٹی او کے پاس گاڑیوں کی تعداد چونتیس تھی اور باقی گاڑیوں کی لاگ بک نہیں دیکھائی گئی
اسی طرح کی بے ضابطگیاں ، اکاونٹس برانچ، ایم ٹی برانچ ،او ایس آئی برانچ، پولیس کار ڈرائیونگ سکول برانچ، وردی گودام ، لفٹر و ویلفیر فنڈمیں کی گئیں جومورخہ2013-07-01سے2015-04-01 تک کی ہیں
مجھے راشد خان پٹھان ٹریفک وارڈن فیصل آباد کی ایک درخواست کے بارے میں بھی معلوم ہواجو اُس نے اپنے ایک سینیر psp آفیسر کے خلاف اسی کرپشن کے بارے میں دی ہے اس درخواست میں وہ لکھتا ہے
کہ ایم ٹی برانچ میں پچاس لاکھ کا فنڈ آیا جو سارا کرپشن کی نظر ہوگیا ۔سٹیشنری کی مد میں دس لاکھ، لائسنسنگ برانچ میں پچاس لاکھ ،لفٹر ویلفیر اکاونٹ سے دوکڑوڑ ،پولیس کار ڈرائیونگ سکول سے تقریباََ چالیس لاکھ کی کرپشن ہوئی ۔
معطل افسران ، لانگ لیو پر جانے والے افسران ، محکمانہ کورس پر جانے والے افسران کے ماہانہ الاونسسز نہ کاٹے جانے کی مد میں ایک کڑوڑ کی کرپشن کی گئی یعنی کروڑوں کی کرپشن تھی ان الزامات کے بارے میں راشد خان پٹھان نے مئی 2015 ایک درخواست آئی جی مُشتاق سُکھیرا کو دی مگر کوئی کارائی نہ ہوئی کیونکہ موصوف sp سابقہ وزیر قانون کی سفارش پر فیصل آباد تعینات ہوئے تھے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پنجاب کو دی گئی درخواست پر انکوائری ٹیم بنی لیکن کوئی رزلٹ نہ آیاایس ایس پی سپیشل برانچ شریف ظفر صاحب کو ان درخواستوں پر انکوائری مارک ہوئی جو بے نتیجہ رہی ۔
اس وقت کے سی پی او فیصل آباد سہیل حبیب تاجک کے حکم سے ڈی ایس پی رانا ارشد نے انکوائری کی جو تاحال پینڈنگ ہے اسی طرح اس وقت کے ڈی پی او چنیوٹ عبدالقادر قمر،ایڈیشنل آئی جی ویجلنس اختر حیات لالیکا نے بھی ان درخواستوں پر اگست 2015 میں انکوائری کی لیکن آج تک ان کا کوئی پتہ نہ چلا
اسی طرح کی درخواست اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب محترمہ حاجرہ آصف کے پاس فروری 2016 سے زیر دریافت ہے متعدد بار راشد خان کو انکوائری کے لیے بلایا جاتا رہا مگر نیب بھی اس مافیا کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور انکوئیری ابھی تک پینڈنگ ہے
میری صرف یہی خواہش ہے کہ اگر راشد پٹھان جھوٹاہے یا ثبوت پیش نہیں کرسکتا تو اُسے سزا دی جائے یا پھر اُسے اتنا بتادیا جائے کہ اُس کی درخواستیں غلط ہیں اور یہ داخل دفتر کردی گئی ہیں راشد خان کوجان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں
یہ ایک راشد خان کی کہانی ہے ایسے کئی راشد خان اس محکمہ پولیس اور دیگر محکموں میں موجود ہیں جن سے اُن کے افسران زیادتی کرتے ہیں اور جب ان کی کرپشن کی کہانیاں اور کرتوت ثبوتوں کے ساتھ افسران اور حکمرانوں کوپیش کی جاتے ہیں تو وہ بھی اس مافیا کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں ۔
یہاں سیاست دان کرپٹ سمجھے جاتے ہیں جن کے خلاف نیب کیس بناتا ہے اور انھیں گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے جس تیزی سے وہ گرفتار ہوتے ہیں اسی تیزی سے عدالتیں انھیں رہا بھی کردیتی ہیں مگر ان بیوروکریٹس کی کرپشن کا یہ حال ہے کہ
صرف ایک ضلع کے چیف ٹریفک آفیسر کی ایک سال کی کرپشن کڑوڑوں میں ہے
ایسے کتنے ہی ضلع ہیں اور کتنے محکمے ہر محکمہ میں بیٹھے ہوئے یہ افسران، اکاونٹنٹ اور دیگر ملازمین کیساتھ مل کر کڑوڑوں ، اربوں روپے کے فنڈز کھاجاتے ہیں مگریہ کرپشن کسی کو نظر نہیں آتی اور بدنام صرف وہ چھوٹے ملازمین ہیں جو پانچ سو یا ہزار روپے رشوت لیتے ہیں اور وہ فوری پکڑے بھی جاتے ہیں ان کو ہتھکڑیاں بھی لگائی جاتی ہیں وہ جیل میں بیمار ہو جائیں تو ان کی ضمانت بھی نہیں ہوتیں اورنہ ہی کوئی عدالت چھٹی والے دن ان کی درخواست کا فیصلہ کرتی ہے ۔
آج ایک راشد پٹھان بول پڑا ہے کل جب ایسے کئی راشد پٹھان بولیں گے تو پھر کیا ہوگا ؟؟
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔