رانا ثنااللہ کیخلاف منشیات برآمدگی کیس میں 1997 کے انسداد منشیات ایکٹ کی دفعات 9 سی،15 اور 17 لگائی گئی ہیں تعزیرات پاکستان 1860 کی دفعات 186،189،225 اور 353 بھی ایف آر کا حصہ بنائی گئی ہیں۔
انسداد منشیات ایکٹ کی دفعہ 9 سی کے تحت جب ملزم سے ایک کلو سے زائد منشیات برآمد ہو تو اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی یا 14 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے
اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جائے گا۔تاہم اگر برآمد ہونے والی منشیات کی مقدار 10 کلو سے زائد ہو تو سزا سزائے موت یا کسی صورت عمر قید سے کم نہیں ہوگی اور ایسا ملزم ضمانت کا حقدار بھی بہت کم ہوتا ہے
رانا ثنااللہ پر انسداد منشیات ایکٹ1997 کی دفعہ 17 بھی لگائی گئی ہے۔اس دفعہ کے تحت جو شخص اینٹی نارکوٹکس فورس کے اہلکاروں کی کارروائی میں رکاوٹ بنے گا،مزاحمت کرے گا اسے 3سال تک قید بامشقت یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں
جبکہ اسی قانون کی دفعہ 15 کے تحت کسی کو اس قانون میں درج کسی جرم پر اکسانے والے کو بھی سزا دی جائے گی۔یہ سزا وہی ہو گی جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 116 میں دی گئی ہے۔یعنی اکسائے گئے جرم کی سزا کا چوتھائی سزا دی جائے گی
رانا ثنااللہ پر تعزیرات پاکستان کی دفعات کیوں لگائی گئیں۔ایف آئی آر کا متن کہتا ہے کہ چھاپے اور گرفتاری کے دوران رانا ثنااللہ اور انکے ساتھیوں نے مزاحمت کی اور دھمکیاں دیں
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 186 کسی سرکاری ملازم کے کام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر بات کرتی ہے،مجرم کو ایک سال تک قید کی سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں
دفعہ 189کسی سرکاری ملازم کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دینے کے حوالے سے بات کرتی ہے۔مجرم کو 2سال تک قید کی سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں
دفعہ 225 کہتی ہے کہ کسی ملزم کی قانونی حراست میں رکاوٹ پیدا کرنا جرم ہے،جسکی سزا 2سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں
رانا ثنااللہ پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 353 بھی لگائی گئی ہے یہ قانون کسی سرکاری ملازم پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران حملہ کرنے کی بابت بات کرتا ہے۔حملہ کرنے والے کو 2سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں
تاہم سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ منشیات کےمقدمہ میں اگر سرکار قانونی تقاضے پورے نہیں کرتی تو ملزم ضمانت کا حقدار ہوگا
مزید سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حال میں اپنے فیصلہ 2019 ایس سی ایم آر کے صفحہ نمبر 930 پر بھی قرار دیا ہے کہ اگر پراسیکیوش سیمپل ٹیسٹنگ پر دفعہ 6 انسداد منشیات ایکٹ 1997 کے ضابطہ پر عمل نہیں کرتی تو ملزم بریت کا حقدار ہوگا.