کنکریاں۔کاشف مرزا
بھارت کی موجودہ بی جے پی حکومت نے اپنا جو ایجنڈا ترتیب دیا ہے وہ کشمیر سے کہیں آگے ہے۔ بھارتی حکومت نے نہ صرف مقبوضہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے دفعہ 35-A کے اختتام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری ہندوئوں کو آباد کرکے مقبوضہ ریاست کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ بھارت کے ان تمام اقدامات کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کی اسلامی شناخت کو ختم کرنا ہے۔بھارت نے اپنے زیر انتظام متنازعہ ریاست جموں وکشمیر میں پارلیمان کے اگست میں منظور کردہ قانون نافذ کردیا ہے۔اسکے تحت مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختارحیثیت کو ختم کردیا گیا ہے اوراس متنازعہ علاقے کوبراہ راست وفاق کی عمل داری میں دے دیا گیا ہے۔اس قانون کے تحت مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کو وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے نفاذ سے قبل ریاست میں سکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کردیا گیا تھااور پورے علاقے میں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔انھوں نے جگہ جگہ چیک پوائنٹس قائم کر لیے ہیں۔اگست کے بعد تاحال سے مقبوضہ وادی میں بیشتر دکانیں،اسکول اور کاروباری مراکز بند ہیں۔وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت نے جی سی مرمو کو ریاست کا نیا منتظم مقرر کیا ہے اور انکے عہدے کو لیفٹیننٹ گورنر کا نام دیا گیا۔بھارتی حکام نے ریاست کے زیر انتظام ریڈیو اسٹیشن کا نام بھی تبدیل کردیا۔پہلے اسکا نام ریڈیو کشمیر سری نگرتھا،اب اسکا نام آل انڈیا ریڈیو سری نگر ہوگا۔بھارتی حکومت کےاس نئے اقدام کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو ایک پرچم اور ریاستی آئین سے محروم کردیا گیا ہے لیکن اس متنازعہ قانون کے نفاذ سے بھارتی آئین کی ایک شق کے تحت کشمیریوں کو حاصل ملکیت کے خصوصی حق کی تنسیخ کردی گئی ہے۔اب مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی جائیدادیں خرید کرسکیں گے۔کشمیری عوام بھارت کے اس اقدام کو اپنی زمین ہتھیانے کا ہتھکنڈا قرار دے رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میںانسانی حقوق کی بے رحمانہ پامالی، کرفیو، لاک ڈائون، گھر گھر تلاشی کے دوران کشمیری نوجوانوں کی جانوں سے کھیلنے، مساجد میں نمازپڑھنے پر پابندی اور اشیائے خوردنی و ادویات کی قلت کو 105دن گزر گئے ہیں مگر زبانی جمع خرچ سے زیادہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے ان ظالمانہ اقدامات کو روکنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ گاندربل میں بھارتی فوج نے سرچ آپریشن کی آڑ میں مزید تین کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ اس طرح شہید ہونے والوں کی تعداد 5ہو گئی۔ اسی دوران ریاست کا اسلامی تشخص مٹانے کے لئے اہم عمارتوں، اسپتالوں، ہوائی اڈوں، کرکٹ گرائونڈز اور شاہراہوں کے نام آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں سے منسوب کرنے کی منصوبہ بندی پر بھی عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ کئے جانے والے تمام معاہدے توڑ ڈالے ہیں،اس لئے پاکستان بھی تاشقند، شملہ اور لاہور معاہدوں سمیت تمام سمجھوتوں سے قطع تعلق کا اعلان کر دے،لائن آف کنٹرول کو دوبارہ جنگ بندی لائن کا نام دے اور ایل او سی پر باڑ کے معاملہ پر نظر ثانی کرے،پاکستان کشمیر کے مسئلے پر کچھ مضبوط اور دو ٹوک فیصلے کرے۔بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری واپس لینے اوراسے 2 وفاقی اکائیوں میں باضابطہ تبدیل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں دکانیں اور دفاتر بند رہے جبکہ سڑکیں صحرا کا منظر پیش کرنے لگیں۔مقبوضہ کشمیر اور لداخ تقسیم ہوگئے جس پر چین نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے اسے ہڑپ کرلیا ہے،لیکنو وہ اسکو تبدیل نہیں کر سکتا کہ یہ علاقہ حقیقت میں چین کے زیر کنٹرول ہے۔
اگرچہاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیرس سے یقین دہانی کروائی ہے کہ اقوام متحدہ ہندوستان کی جانب سے جاری کردہ اس نقشے کو تسلیم نہیں کرے گا کہ جس میں مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ دکھایا گیا ہے کیونکہ یہ بھارتی نقشے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کیخلاف بلکہ متصادم ہیں۔ بھارتی چالوں کا تجزیہ کیا جائے تو یقین ہے کہ بھارت کااپنا نیا نقشہ گوگل نقشہ جات پر لانے کا مقصدآہستہ آہستہ دنیا کوواقف بنانا ہے۔جیسے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے پر سوائے چین اور پاکستان کے کوئی نہیں بولا اسی طرح اس نئے نقشے پر بھی ہمارے سوا کوئی نہیں بولاہے۔دنیا میں ہماری اتنی شنید نہیں۔جبکہ بھارت کئی ممالک کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اور تواور سعودی عرب اور دوبئی جیسے پاکستان کے گہرے دوست اور برادر مسلم ممالک بھی بھارت میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو یو اے ای کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ‘زید میڈل’ سے نوازا گیاہے۔شیخ زید نے اپنے سرکاری ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بتایا کہ نریندر مودی کو یہ ایوارڈ ‘دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں انکے کردار کے اعتراف میں’ دیا گیا ہے۔جب ان جیسے ممالک ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں تو بھلا مغربی ممالک ہماری مدد کو کیوں آئیں گے جنکے ساتھ نہ صرف بھارت کی دوستی ہے بلکہ اربوں ڈالرز کی تجارت ہے اور انکے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ ان ممالک کو تو چھوڑیں چین جو ہمارا گہرا دوست ہے اور ہماری دوستی سمندروں سے گہری،ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی ہے اسکی بھی بھارت کے ساتھ80بلین ڈالرز سے زیادہ کی تجارت ہے۔یقین نہیں آتا کہ چین ہمارے لئے بھارت کی اتنی بڑی تجارتی منڈی قربان کر دیگا۔
دنیا میں پاکستان کے بیانیہ کو پذیرائی نہ ملنا ہمارے لئے بڑا سوال ہے، خودوزیرخارجہ کا بیان دیکھیں کہ ہم سلامتی کونسل میں اپنی سفارتی لڑائی ہارے ہوئے دل کے ساتھ لڑنے جارہے ہیں، جب آپ خود ہار تسلیم کرلیں گے تو کون آپ کا ساتھ دے گا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے 70 دنوں میں وہ کام کر دکھایا جو ان سے قبل دیگر حکومتیں 70سال میں بھی نہ کر سکیں۔جبکہ ہماری کامیاب سفارتکاری کایہ حال ہے کہ سلامتی کونسل کے پانچ میں سے چار مستقل ممبران نے کشمیر کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ صرف چین نے اس موقف کی مخالفت کی۔دس غیر مستقل ممبران میں سے نو نے انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دیا،اور تواور ہمارے برادر اسلامی ممالک کا کردار بھی حوصلہ افزا نہیں۔اوآئی سی کی جانب سے آنے والاردِعمل کافی کمزورہے۔ جب اسرائیل نے1967میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کےآخری مرحلے میں گولان ہائیٹس پرقبضہ کیاتھاتو 50سال پرانی اوآئی سی کارویہ محض ایک تماشائی کی طرح تھا،فلسطینیوں کومایوسی ہوئی تھی جب اس نےبظاہربغیرکسی احساس جرم کےسفارتی الفاظ سےبھرےصرف چندبیانات جاری کیےتھے، بالکل اسی طرح غالباًبھارت اسرائیل کی پیروی کررہاہے۔
اگرایسا نہیں ہے تو اوآئی سی کے رکن ممالک کے ساتھ بھارت کے تجارتی اورکاروباری طاقت اتنی زیادہ ہے کہ اسکےتجارتی پارٹنراُسے نظراندازنہیں کرسکتے 1990 کےاوائل میں جب بوسنیا میں قتلِ عام کیاگیا تب سےملوسیوک کانام نسلی کشی کا مترادف بن چکا ہے،مودی ایڈولف ہٹلرکی تقلیدکرناچاہتا ہے۔57 رکن والی اوآئی سی کے 53اراکین مسلم اکثریتی ممالک ہیں مارچ2019 میں اوآئی سی کے46ویں اجلاس میں بھارت کو بطورمہمان خصوصی بلاکر خوش کیاگیاتھا۔یہ 1969میں اوآئی سی کےبننے کےبعد سےاپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو کاٹنے کے درپے بھارت کی اقتصادی شہ رگ خام تیل کی شکل میں 6 مسلمان ملکوں کی مٹھی میں ہے لیکن بھارت سے سالانہ 208 ارب ڈالر کی تجارتی پارٹنر شپ اسلامی دنیا کے لئے اسکی مخالفت کرنے میں پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے۔اب ٹرمپ کی ثالثی کی باتیں عام ہیں، کیا عوام یہ پوچھنےکا حق نہیں رکھتے کہ امریکی بحری بیڑے کے ڈرامے سے لیکر ثالثی کے اعلان تک قوم کو ماسوائے شکست وریخت اور مایوسی کے کیا ملا ہے؟ قابلِ غور یہ ہے کہ جب نام نہاد مہذب دنیا مظلوم کی عملی مدد سے پہلو تہی کرنے لگتی ہے تو پھر زندہ قومیں کیا اقدامات کرتی ہیں۔
گذشتہ 72 سالوں سے مسئلہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا نکتہ رہا ہے۔ قائد اعظم نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا، قائد ملت لیاقت علی نے کشمیر ہی کے مسئلے پر بھارت کو مکا دکھایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کشمیر کاز کے چیمپیئن تھے، بینظیر بھٹو نے تحریک آزادی کشمیر کا بھرپور ساتھ دیا۔جنرل مشرف نے کارگل کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی ناکام کوشش کی مگر کوشش تو کی۔ ایوب خان کے زمانے میں بھی منصوبہ بندی ہوئی۔ آپریشن جبرالٹر بھی ناکام ہو اتھا مگر کچھ کیا تو تھا۔اب تو شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے عوام احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔خدانخواستہ کہیں دوسرا سقوط ڈھاکہ ہو چکا ہے؟ خدانہ کرے ایسا ہو مگر صاف لگ رہا ہے کہ کشمیر میں فلسطینی ماڈل کے مطابق کام ہو رہا ہے اور ہم عرب دنیا کی طرح ‘اِب کے مار’ والی مزاحمت کر رہے ہیں۔کچھ ایسا ہی حال اس بار ہمارا کشمیر ہڑپ ہو جانے پر ہے،نہ ہماری کوئی حکمت عملی نظر آ رہی ہےاور نہ کچھ سوجھ رہا ہے کہ انڈیا کو جواب کیا دیں؟قومی قیادت کا امتحان آزمائش کے وقت ہی ہوتا ہے۔دوسری جنگِ عظیم جاری تھی اور برطانیہ کو آغاز میں شکست پر شکست ہو رہی تھی۔ اُن دنوں ریڈیو سے خبروں میں کہا جاتا کہ برٹش فورسز نے فاتحانہ پسپائی اختیار کی ہے۔ ’فاتحانہ پسپائی‘ کے الفاظ آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں۔آج اپنے ملکی حالات پر نگاہ ڈالتا ہوں ،تو فاتحانہ پسپائی کے مناظر وقفے وقفے سے دیکھنے میں آتے ہیں۔
15دسمبر 1971، مشرقی پاکستان کا آخری دن تھااوربنگلہ دیش کےقیام میں کا انڈیا کاتاریخی شرمناک کردار تھا،یہ آپریشن بھارت نے کیاتھا،جوآج بھی پاکستان ،عوام اور اسکے ذمے داروں پر ادھار ہے، جسے چکانا ایک زندہ قوم کی نشانی اور فرض ہے۔اس سے یہاں یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ بھارتی مداخلت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ تو کیا ہمارے کشمیری بھائی اس طرح کی امداد کے بغیر بھارتی سامراج سےیہ جنگ جیت لیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں شدت سے پوچھا جا رہا ہے۔ پاکستانی مخمصے سے دوچار ہیں۔ بین الاقوامی حمایت، امداد و کردار کے سلسلے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ اس طرح کے ابہام پذیر واقعات کی گواہی دیتی ہے۔ ہم آج تک اُس امریکی دغا کا ذکر کرتے ہیں جو اُس نے امدادی بحری بیڑا نہ بھیج کر ہمیں بھیج منجدھار میں لا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن تاریخ کا سچ یہ ہے کہ ایسا کوئی وعدہ سرے سے کیا گیا ہی نہیں تھا۔
دوسری طرف مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی فضائیہ کی کئی روز سے غزہ پر بمباری جاری ہے جسےکے بعد شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے۔ایک زمانہ ایسا تھا جب آزادی اور خودمختاری کی تحریکوں کو دنیا بھر سے اخلاقی حمایت ملا کرتی تھی۔کشمیر،ویت نام،افغانستان،آئرلینڈ اور فلسطین کی آزادی کو دنیا بھر میں عوامی حمایت حاصل تھی۔ان دونوں تحریکوں کی خاص بات یہ تھی کہ تحریک کی قیادت سیاسی ہاتھوں میں تھی جبکہ مزاحمتی تنظیمیں پس پردہ رہ کر کام کرتی تھیں۔کشمیر میں سیاست اور مزاحمت کاری میں وہ ہم آہنگی کم رہی ہے۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ اگر وزیراعظم مودی نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمارا جواب کیا ہو گا۔ اب وزیر اعظم اپوزیشن سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ بتائیں ہم کشمیر پر کیا کریں۔ کیا باقی فیصلے اپوزیشن سے پوچھ کر کر رہے ہیں جو یہ فیصلہ انکی مرضی سے کریں گے۔واقعی حکومت کشمیر کی صورتحال پر آؤٹ آف آئیڈیاز ہو چکی ہے ؟
ہم بحیثیت قوم کشمیر کو نا تو بھول سکتے ہیں اور نا ہی کشمیر کو بھارت کے ہاتھوں میں دے سکتے ہیں اور نا ہی وہاں بھارتی بالادستی کو قبول کرسکتے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ ہم ایسی صورت حال میں صرف سمجھ بوجھ کے ساتھ وسط مدتی جارحانہ اور خود انحصاری خارجی پالیسیاں ہی کامیابی کا باعث بن سکتی ہیں۔دنیا پہلی مرتبہ فتنہ پرور افراد کو حکمران کی صورت میں دیکھ رہی ہے جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، نیتن یاہواور نریندر مودی اس فہرست میں شامل ہیں۔ووٹوں کے حصول کے لیے اپنی عوام کے یہ مقبول رہنما اقلیتوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کررہے۔جبکہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان پرامن طریقے سے بھارت کے ساتھ مسائل حل کرے۔ایسی صورت حال میں پاکستان کیا کرسکتا ہے؟پاکستان ، بھارت کے خلاف دفاعی اور جارحانہ دونوں طرح کے طریقہ کار استعمال کرسکتا ہے۔دفاعی اقدامات کے طور پر سفارتی، سیاسی اور قانونی ذرائع کا استعمال یعنی یواین یو، این ایس سی، آئی او سی، آسیان، جی سی سی، ایس سی او، آئی سی جے، عالمی عدالت انصاف وغیرہ کر سکتا ہے۔
ضروری ہے کہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر کے تمام پارٹیز کے سرکردہ لیڈران اور بیرون ملک کشمیریوں پرمشتمل ایک جلاوطن حکومت کا قیام کیا جائےاوراسکا دارلخلافہ مظفرآباد ہو جسےپاکستان فوری تسلیم کرےاور اسی طرز پر انڈیا کے اندر دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کی جلاوطن حکومتوں کو بھی تسلیم کرکے انڈیا پر پریشر بلڈ اپ کیا جائے۔دوسرا، پاکستان شملہ معاہدے اور لاہور معاہدے پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔تیسرا،اسلام آباد لائن آف کنٹرول کا ازسرنو تعین کرنے کی خواہش کا اعلان کرسکتا ہے۔اسی طرح اقتصادی پابندیاں اور بھارت پر مستقل فضائی پابندی کا فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔چوتھا، دہلی کا اثرورسوخ افغانستان میں محدود کرنا، ایران کو بھارت کے بجائے چین کی جانب راغب کرنا، یا چاہ بہار کا افغانستان سے راستہ محدود کرنا ۔بھارت زیادہ تر تیل،اور لیبر مارکیٹ مڈل ایسٹ، کویت، یو اے ای اور سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے، پاکستان وہاں اپنے خصوصی تعلقات کا استعمال کرکے بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔پاکستان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ بھارت پر پراکسی کے ذریعے دباوڈالے۔پانچواں، جارحانہ طریقہ کار، پاکستان مستحکم مالیاتی اور زری پالیسی کے ذریعے اپنے آپکو اس قابل کرے کہ وہ کشمیریوں کی مالی امداد کرسکے، جیسا کہ بھارت،بلوچستان میں کررہا ہے۔اسلام آباد، بھارت کے مشرقی اور مغربی راہداری کے خواب کو چکنا چور کرسکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ برصغیر اور عالمی امن کو بچانے کے لئے اقوام متحدہ عملی اقدامات کرے۔عالمی برادری خصوصاً عالم اسلام نے بھارت کے خلاف پابندیوں اور کشمیری عوام کو بھارتی جبر سے نجات دلانے کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق پر امن سیاسی ذرائع سے حل کرنے میں ناکام ہو گئی تو کشمیری ایک بار پھر بندوق اٹھانے پر مجبور ہوں گے جو خطہ اور خود بھارت کے لئے تباہ کن ہوگا کشمیری اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لیں گےاور دیوار برلن کی طرح زمینی صورتحال کو بدل ڈالیں گے،ایک دن وہ بھارت کی ایل او سی پر لگائی باڑ کو بھی اکھاڑدیں گے، عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے باوجود مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے جس سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔پاکستان میں یہ تاثر غلط ہے کہ بھارت ناکام اور ہم کامیاب جا رہے ہیں،بھارت بابری مسجد کے بعد پاکستان کا پانی بند کرنے سمیت مزید اقدامات کررہا ہے،اس نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان کو ہدف بنا رکھا ہے وہ کیسے ناکام ہے۔کشمیراور فلسطین کی عوام کوبھی اب بیرونی امداد کی امید کو چھوڑ کر ویت نام،آئرلینڈاور افغانستان کی تحریک آزادی سے سبق سیکھنا ہو گا!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔