زمین پر قبضے کا واقعہ گوجرانوالہ کے علاقے ڈیفنس میں پیش آیا جہاں پر کچھ لوگ زمین پر قبضے کےلیے آئے جس پر سب انسپکٹر جنید نے انہیں روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ زمین جنید چیمہ کی فیملی کی تھی
جنید اکرم چیمہ گوجرنوالہ پولیس میں بطور سب انسپکٹر فرائض سر انجام دے رھا ھے۔ گورنمنٹ کالج لاھور سے فارغ التحصیل اس نوجوان کی علمی، ادبی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا میں عرصہ سے مداح ھوں۔ حق پر ڈٹ جانے والا یہ نوجوان بلاشبہ پنجاب پولیس اور مظلوم عوام دونوں ہی کے لئے باعث فخر ثابت ھو سکتا تھا۔ جی ھاں۔ ھو سکتا تھا۔۔۔۔مگر 20 مئی 2019 کا دن آن پہنچا۔
بات کچھ یوں ھے کہ جنید چیمہ کی آبائی زمین جو کہ تقریباً 34 ایکڑ بنتی ھے گوجرنوالہ میں بننے والی ایک پوش ھاؤسنگ سوسائٹی جسکو عرف عام میں ھم لوگ ڈیفینس ھاؤسنگ اتھارٹی یا ڈی ایچاے کے نام سے جانتے ہیں کے عین مرکزی حصہ پر واقعہ ھے۔ متعدد مرتبہ جنید اور اسکے خاندان کے دیگر افراد سے اسی قطعہ زمین کو مذکورہ ھاؤسنگ سوسائٹی کے ہاتھوں بیچ دینے کے لئے بات کی گئی جو کہ چیمہ فیملی کے مسلسل انکار پر معاملہ جوں کا توں ہی رھا۔ گزشتہ شب اسی ھاؤسنگ سوسائٹی کے کچھ کارندے اپنے اعلٰی حکام کی شہہ پر اس زمین پر بزور بازو قبضہ کرنے پہنچ گئے اور زمین کو لیول کرنا شروع کر دیا۔ بہر حال چیمہ فیملی کے بروقت موقعہ پر پہنچ جانے اور قابضین کو زبردستی اپنی ملکیتی جگہ پر گھسنے سے روکنے پر معاملہ مقامی پولیس کے متعلقہ تھانہ کینٹ پہنچا۔ جہاں پر انجانے دباؤ اور گمنام چہروں کی لاج رکھنے اور مظلوم خاندان کو بلیک میل کرنے کی خاطر اپنی ہی زمین کو قبضہ مافیا کے قبضہ سے بچانے کی تگ و دو میں مصروف حاضر سروس پولیس سب انسپکٹر جنید اکرم چیمہ کو اس کے اپنے ہی ضلع کے اپنے ہی پیٹی بھائیوں نے حوالات میں بند کر دیا۔ معاملہ یہیں تک ھوتا تو بھی قابل فہم تھا کہ ایسے معاملات میں 107، 151 ضابطہ فوجداری کی کاروائی عموماً کی جاتی ھے۔ واقعہ کی سنگینی تو یہ ھے کہ مخالف فریق یعنی ڈی ایچاے کے ملازمین جو کہ قبضہ کی نیت سے اور پوری تیاری کے ساتھ کسی شخص کی ملکیتی زمین میں داخل ھوۓ انکے خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ جس ہر دلبرداشتہ ھو کر جنید اکرم نے بطور پولیس افسر اپنے عہدے سے یہ کہتے ھوۓ استعفیٰ دے دیا ھے کہ اگر میرا محکمہ مجھے خود کے لئے انصاف حاصل کرنے میں میرے ساتھ کھڑا نہیں ھوسکتا تو مجھے کوئی حق حاصل نہیں کہ میں قوم کا ٹیکس کا پیسہ تنخواہ کی صورت میں برباد کرتا رہوں جبکہ میں کسی کو انصاف نہیں دلوا سکتا۔
یاد رہے یہ ھاؤسنگ سوسائٹی پاک فوج میں شہید ھونے والے اور گرانقدر خدمات سر انجام دینے والے جوانوں اور افسروں کے نام پر بنائی جاتی ھے۔ جن کی قربانیاں بلاشبہ لازوال اور لائق تحسین ھیں مگر سوال یہ اٹھتا ھے کہ یہ کہاں کا انصاف ھے کہ آپ ان قربانیوں کے بدلے ھم سے ھمارے بنیادی حقوق چھیننے کے درپے ھو جاؤ۔ سوال یہ اٹھتا ھے کہ ھماری اس ملک میں حیثیت کیا ھے۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ھے کہ منظور پشتین کی جماعت پی ٹی ایم جو نعرہ لگاتی ھے کہیں وہ واقعی درست تو نہیں؟ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جس بیانیے کو لیکر اکٹھے ھو رہے ہیں کہیں وہ حقیقت کے قریب ترین تو نہیں؟؟ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ھے کہ کیا یہ قبضہ گروپ ذہنیت کسی ادارے کی مجموعی سوچ کی عکاس ھے یا پھر کسی فرد واحد کی ذاتی فوائد کے حصول کے لئے ادارے کا نام استعمال کر کے ادارے کی بدنامی کا باعث بننے کی کوشش ؟؟ سوالات تو بہت جنم لیں گے مگر میں پھر بھی اپنے اداروں کی صلاحیت اور قابلیت سے پر امید ھوں۔ امید کی جاتی ھے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم سمیت ڈی جی آئی ایس پی آر اور آرمی چیف اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لیکر اداروں کو بدنام کرنے کی اس کوشش کو بے نقاب کریں گے اور فوج کا نام استعمال کر کے سادہ لوح لوگوں کو جبری گمشدگیوں کی دھمکیاں دیکر اور اداروں اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کرنے والے اس قبضہ مافیا کی سرکوبی کو یقینی بنائیں گے۔ فارسی کہاوت ھے خاموشی نیم رضا است یعنی خاموشی بھی رضامندی ہی ھوتی ھے۔ امید کرتے ہیں ارباب اختیار اس معاملہ سے بیم رضا مندی کی بھنک نہ آنے دیں گے۔