ریکوڈک کیس کمشن۔ منطقی انجام تک پہنچانا ضروری !
کاشف مرزا۔کنکریاں
سابقہ حکومتوں کی عاقبت نا اندیشی اور ذمہ دار حکام کی نا اہلی نے ملکی مفاد کو کتنا نقصان پہنچایا اسکی ایک نظیر ریکوڈک کیس میں بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل کی جانب سے غیر ملکی کمپنی ٹیتھیان کے حق میں دیئے جانے والے فیصلے کی صورت میں سامنے آئی جس میں پاکستان پر 6 ارب ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے 9کھرب روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ریاست پر قریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہو چکا ہے۔ آج جب ہم ایک ایک ڈالر جوڑ رہے ہیں کہ دنیا کا قرضہ اتار سکیں، غلط اقدامات حکمران طبقے کے لیکن زرِ تلافی ایک ایک پاکستانی کو دینا پڑے گا۔
ٹیتھیان کمپنی کو 1993میں بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور تانبے کی تلاش کا لائسنس دیا گیا تھا جسکے نتیجے میں ریکوڈک سے اربوں ٹن تانبے کے علاوہ ڈھائی ارب سالانہ اور مجموعی طور پر 131 ارب ڈالر کا سونا حاصل ہونا تھا۔تا ہم بعض مسائل کی وجہ سے کمپنی کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ تک چلا گیا جس نے اس کا لائسنس منسوخ کردیا۔ کمپنی نے عالمی ٹربیونل میں اپیل کردی جس نے 2017 میں پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا اور بلوچستان ووفاقی حکومتوں کی جانب سے کمپنی کے ساتھ سمجھوتے کی معطلی کو غیر قانونی قراردیا۔ ٹربیونل نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر عملدرآمد نہ ہونے پر بیرون ملک پاکستان کے تمام اثاثے ضبط ہونے کا اندیشہ ہے۔ستم یہ کہ پاکستان پر نہ صرف اتنا بڑا جرمانہ ہوا بلکہ ٹربیونل میں پیش ہونے والے غیر ملکی وکلاء کو بھاری فیسیں بھی ادا کی گئیں جو کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے بجائے درمیان میں ہی علیدگی اختیارکرتے رہے ۔ایک خاتون وکیل کوجو سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ ہیں مبینہ طور پر ایک ارب روپے فیس میں دیئے گئے۔
ٹربیونل کا فیصلہ آنے اور اس کے نتائج کا علم ہونے پر وزیرا عظم عمران خان نے کیس میں بھاری جرمانے اور دیگر نقصانات کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کی ہدایت کردی ہے جو معاملے کے ذمہ داروں کا تعین کرے گا انکے خلاف کارروائی تجویز کرے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے سفارشات بھی پیش کرے گا ۔کمیشن 1993 سے اب تک اس معاملے میں بھاری مالی نقصانات کا سبب بننے والے تمام افراد کو شامل تفتیش کرے گاان میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل ہوسکتے ہیں جن کی سربراہی میں عدالتی بنچ نے ٹیتھیان کے لائسنس کو منسوخ کیا تھا۔ حکومت ٹربیونل کے فیصلے کے قانونی اور مالی اثرات کا جائزہ لے رہی ہے جسکے بعد آئندہ کا مزید لائحہ عمل طے کیا جائے گالیکن اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا ہے کہ فیصلے کے خلاف اب اپیل کا آپشن موجود نہیں ہے تاہم ٹیتھیان کمپنی نے معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لئے مذاکرات کی پیشکش کی ہے اور اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ اٹارنی جنرل آفس کے ایک اعلامیےکے مطابق حکومت کمپنی کی جانب سے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے بیان کو خوش آئند قرار دیتی ہے۔
پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہےوہ سرمایہ کاروں کے قانونی حقوق اور مفاد کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ کمپنی سے مذاکرات کب اور کیسے ہوں گے فریقین جلد اس حوالے سے رابطے قائم کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے معاملے کا سنجیدگی سے بروقت نوٹس لے کر پاکستان کو جو اس وقت آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے معاشی بحالی کیلئے قرضے لینے پر مجبورہے۔ 6ارب ڈالر کے جرمانے سے بچانے کے لئے کمیشن قائم کرکے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔
ریکوڈک جو سونے کی کان ہے، جس میں ہمارے تمام مصائب کا مداوا ہے۔ جہاں بین الاقوامی کمپنی نے پورے دس سال کی کھدائی اور عرق ریزی کے بعد یہ نوید دی کہ یہاں 5.9ارب ٹن(کچ دھات) Oreموجود ہے۔ جس میں 41فیصد تانبا ہے اور اس میں 41ملین اونس سونے کے ذخائر بھی ہیں۔ جہاں بہت اعلیٰ قسم کا یورینیم بھی ہے۔ریکوڈک کی پہاڑیوں میں کسی زمانے میں یہاں لاوا پھوٹتا تھا اب یہ خاموش آتش فشاں اس ریاست کو سونا، تانبا اور بہت کچھ دے کر مالا مال کرنا چاہتا ہے۔ ٹی تھیان کمپنی نے 2001سے 2010کے طویل عرصے میں تلاش کے مراحل طے کیے تھے۔ وہ مطلوبہ دھاتیں نکالنے کا کام شروع کرنا چاہتی تھی۔ فروری 2011میں اس نے ریکوڈک کی لیز کے لئے درخواست دی۔ نومبر 2011میں بلوچستان حکومت نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ ٹی تھیان نے عالمی ادارے میں پاکستان کے خلاف درخواست دائر کردی۔
ہماری عدالت عظمیٰ نے 7جنوری 2013کو کمپنی ٹی تھیان کے ساتھ معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ کسی نے نہ سوچا کہ اس کے کتنے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ٹی تھیان کوئی غریب مظلوم پاکستانی نہیں ہے جسکی داد فریاد کہیں نہیں سنی جاتی۔ عالمی بینک کے ٹریبونل نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا۔ ریاست پاکستان کو قصور وار قرار دیا۔ یہ بات ہے 21مارچ 2017کی۔ لیکن18جولائی 2017کو بلوچستان کی حکومت نے 11.5ارب ڈالر کے جرمانے کو مسترد کردیا۔ پاکستان نے ملکی غیر ملکی وکیلوں پر اربوں روپےخرچ کیے لیکن کسی فورم پر وہ متعلقہ اتھارٹی کو مطمئن نہیں کرسکے۔ بلوچستان میں پی پی پی کی حکومت تھی جب ٹی تھیان سے تنازع شروع کیا گیا۔ ان سے پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان جام یوسف کو تو ٹی تھیان والے چلی بھی لے گئے تھے اور تانبے سونے کی کان کنی کے عملی مظاہر بھی دکھائے تھے۔ اسلم رئیسانی نے ٹی تھیان کی درخواست کیوں مسترد کی۔ کیا اس میں انہوں نے کسی سے مشورہ کیا تھا، اس میں ٹیکنیکل اسباب تھے یا مالی معاملات ؟ کسی نے جائزہ کیوں نہیں لیا۔ بعد میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت آگئی۔ انہوں نے بھی اس مسئلے کی سنگینی کا احساس نہیں کیا اور نہ یہ اہمیت دی کہ ٹی تھیان کمپنی سے ماورائے عدالت کچھ طے کرکے اس کان سے سونا نکالنا شروع کیا جائے۔
ریاست پر ہزاروں ارب روپے کے قرضے چڑھے ہوئے ہیں۔ ایک کان جہاں سے کچھ بہت مدد مل سکتی تھی،اسکا منہ بند کردیا گیا اور بین الاقوامی قوانین اور اداروں کو بھی اپنے تابع خیال کیا گیا۔ عالمی بینک کے ادارے(ICSID) سرمایہ کاری کے تنازعات کا تصفیہ کرنے والے بین الاقوامی مرکز نے بالآخر ٹی تھیان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس میں 4.08ارب ڈالر جرمانہ ہے اور 1.87ارب ڈالر سود ہے۔ اسکے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں اس بارے میں زیادہ تر نفی میں امکانات ہیں۔ اب ریاست پاکستان یہ جرمانہ کیسے ادا کرے گی؟پارلیمنٹ کو جائزہ لینا چاہئے کہ ٹی تھیان کمپنی نے جو معاہدہ کیا تھا۔ جس میں 100میں سے 48ٹی تھیان کے اور 52حصّے پاکستان کے تھے۔ بلوچستان کے لئے الگ سے فیصد25 تھا۔ ٹی تھیان نے چاغی ایئرپورٹ بھی تعمیر کیا۔ کارکنوں کے لئے رہائشی سہولت اور انہوں نے ریکوڈک 2کی نشاندہی بھی کردی تھی۔ اس کام کےلئے بینکوں کے کنسورشیم سے 6بلین ڈالر کا اہتمام بھی کر لیا تھا۔ اندازہ کہ مطابق روزانہ 110000ٹن کچ دھات نکلتی۔ جسے 680کلومیٹر پائپ لائن کے ذریعے گوادر بندرگاہ پر منتظر بحری جہاز میں لادا جاتا اور پھر کسی ریفائنری میں چھان کر سونا اور تانبا الگ کیا جاتا۔ پائپ لائن کی تعمیر سے یہ سارا علاقہ بھی آباد ہو جاتا۔ اندازہ کہ مطابق ہر سال دو لاکھ ٹن تانبا اور اڑھائی لاکھ اونس سونا برآمد ہوتا۔ یہ سلسلہ سالہا سال تک جاری رہتا۔
پاکستان معدنی ذخائر سے مالا مال ملک ہے اور انکی تلاش کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کی اسے اشد ضرورت ہے۔ حکومت اس سلسلے میں خصوصی اقدامات کر رہی ہے کوشش کی جانی چاہئے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ جو بھی معاہدے ہوں ان میں ملکی مفاد کا پوری طرح خیال رکھا جائے اور جب ایک بار کوئی سمجھوتہ ہوجائے تو اسکی تمام شرائط پر عمل کیا جائے ایسا نہ ہونے سے سرمایہ کار یہاں کا رخ نہیں کریں گے اور قوموں کی برادری میں پاکستان کی اچھی شہرت کو نقصان بھی پہنچے گا۔کتنے دُکھ کی بات ہے کہ قدرت نے ہمیں وسائل بخشے ہوئے ہیں لیکن ریاست کے مفادات کو تباہ و برباد کیاجارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ ہم اپنے زرعی شعبے کو طاقتور بنائیں، اپنی معدنیات کو دریافت کریں، گیس، تیل کے زخائرانتظار کر رہے ہیں۔ پہاڑوں میں قیمتی دھاتیں بھی ہیں اورگرانقدر جوہرات بھی ہیں۔ کتنے ہی ریکوڈک ہمارا مستقبل مستحکم کرنے کے لئے بے تاب ہیں اسکے لئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں امن ہو اورعوام خوشحال ہوں تاکہ پاکستان اورہم سب کامستقبل محفوظ ہو!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کردیجیے.