کنکریاں۔کاشف مرزا
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو یو اے ای کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ‘زید میڈل’ سے نوازا گیاہے۔شیخ زید نے اپنے سرکاری ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بتایا کہ نریندر مودی کو یہ ایوارڈ ‘دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں انکے کردار کے اعتراف میں’ دیا گیا ہے۔اس پرناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر انسانی حقوق کے نمائندہ اراکین اور عام شہری مودی کو دیے گئے ایوارڈ کے باعث یو اے ای حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور اسکی واحد وجہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال ہے۔
دوسری وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا یہ خدشہ کہ مودی سرکار کشمیر کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے کسی جعلی دہشت گرد کارروائی کا ناٹک رچا کر اس کا الزام پاکستان پر ڈال سکتی ہے، بالکل ممکن اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی روایت کےمطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا پر یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ افغانستان سے کچھ دہشت گرد مقبوضہ کشمیر اور جنوبی بھارت میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایسا ہوا تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے، عمران خان کا یہ کہنا کہ اس کشیدگی کا نتیجہ ’’کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ معاملے کی سنگینی کو پوری طرح واضح کرتا ہے، لہٰذا اس آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے ہی عالمی برادری کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق تنازع کشمیر کے منصفانہ تصفیے کے لئے اپنا کردار نتیجہ خیز طور پر ادا کر کے علاقائی اور عالمی امن کو یقینی بنانا چاہئے ورنہ صرف جنوبی ایشیا ہی کو نہیں پوری دنیا کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔عمران خان نے بھارت سے مذاکرات کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ مزید بات چیت کا اب کوئی فائدہ نہیں ،مودی نے میری امن کوششوں کو کمزوری سمجھا، دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں جو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہ تنائو دنیاکیلئے بھی باعث ِ فکر ہونا چاہئے، امریکی صدر ٹرمپ کو انتہائی تباہ کن صورتحال کے خدشے سے آگاہ کر دیا ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ انہوںنے عالمی برادری سے سوال کیا ہے کہ کیا دنیا خاموشی سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اور سربرینیکا (بوسنیا) اور گجرات جیسے ایک اور قتل عام کا انتظار کررہی ہے؟
بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں23 روز سے کر فیو کا نفاذجاری ہے۔پہلے ہی سے بھاری افواج کی تعیناتی والے مقبوضہ علاقے میں مزید فوجوں کی تعیناتی کی جارہی ہے۔ آر ایس ایس کے غنڈوں کو مقبوضہ وادی میں بھجوایا جا رہا ہے۔ اطلاعات ا ور وسائلِ ابلاغ کی مکمل بندش کر دی گئی ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے 70 دنوں میں وہ کام کر دکھایا جو ان سے قبل دیگر حکومتیں 70سال میں بھی نہ کر سکیں۔جبکہ ہماری کامیاب سفارتکاری کایہ حال ہے کہ سلامتی کونسل کے پانچ میں سے چار مستقل ممبران نے کشمیر کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ صرف چین نے اس موقف کی مخالفت کی۔دس غیر مستقل ممبران میں سے نو نے انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ صرف انڈونیشیا نے باہمی طور پر مسلۂ کے حل کی طرف زور دیا۔حکومت کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن بڑی طاقتوں کی بے اعتنائی کے سبب اب تک کے اقدامات قومی تسکین کا باعث نہیں بن پا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قوم جذباتی انداز میں سوچنے پر مجبور نظر آتی ہے۔
اب عام محفلوں تک میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مشاورتی اجلاس کا ڈھنڈورا یہ کہہ کر پیٹا گیا کہ یہ سلامتی کونسل کا باقاعدہ اجلاس ہے، قوم کو بتایا گیا کہ اجلاس ہماری درخواست پر بلایا گیا، حالانکہ یہ چین کا مرہونِ منت تھا، نہ تو اس مشاورتی اجلاس نے کوئی اعلامیہ جاری کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی سلامتی کونسل کے باقاعدہ اجلاس کیلئے کسی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بڑی طاقتوں کی تشویش بجا مگر مظلوم کشمیریوں کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے عملی اقدامات پر بات تک نہیں ہوئی۔ اور تواور ہمارے برادر اسلامی ممالک کا کردار بھی حوصلہ افزا نہیں۔ اب ٹرمپ کی ثالثی کی باتیں عام ہیں، کیا عوام یہ پوچھنےکا حق نہیں رکھتے کہ امریکی بحری بیڑے کے ڈرامے سے لیکر ثالثی کے اعلان تک قوم کو ماسوائے شکست وریخت اور مایوسی کے کیا ملا ہے؟ قابلِ غور یہ ہے کہ جب نام نہاد مہذب دنیا مظلوم کی عملی مدد سے پہلو تہی کرنے لگتی ہے تو پھر زندہ قومیں کیا اقدامات کرتی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے کئے گئے خلاف قانون عمل کو واپس کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے پاکستان عالمی ادارے کا ضمیر جھنجھوڑرہا ہے تاکہ وہ اپنی قرار دادوں جن پر 70 سالوں سے زائد کے عرصے سے عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے، ان پر من و عن نافذ کروائے۔ اس صورتحال میں پاکستان اب جان لے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کونسا مستقل رکن انکے ساتھ کھڑا ہوگا۔ عشروں کے بعد تنازع کشمیر آج ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ کا محور بنا ہوا ہے۔ حریت قیادت ہی نہیں نئی دہلی کے اتحادی کشمیری رہنماؤں کی بھی نظر بندی کے باوجود مقبوضہ وادی کا بچہ بچہ بھارتی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزادی اور قابض فوج کی بہیمیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بدلنے سے روکنے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی گئیں پھر بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔سچ تو یہ ہے کہ کشمیریوں نے اپنی بے مثال جدوجہد سے دنیا پر یہ ثابت کر دیا تھا کہ انکااورانڈیا کا اکٹھے گزارا نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت کوئی بھی عالمی ادارہ یا لیڈر ایسا نہیں جو بین الاقوامی معاملات کا درد رکھتا ہو۔ ہر ایک کو اپنے مفادات کی پڑی ہے۔ ٹرمپ ہو یا پوتن کوئی بھی اپنے ملکی مفادات کے تنگ دائرے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔
15دسمبر 1971،مشرقی پاکستان کا آخری دن تھا،اوربنگلہ دیش کےقیام میں کا انڈیا کاتاریخی شرمناک کردار تھا،یہ آپریشن بھارت نے کیاتھا،جوآج بھی پاکستان،عوام اور اسکے ذمے داروں پر ادھار ہے، جسے چکانا ایک زندہ قوم کی نشانی اور فرض ہے۔اس سے یہاں یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ بھارتی مداخلت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ تو کیا ہمارے کشمیری بھائی اس طرح کی امداد کے بغیر بھارتی سامراج سے یہ جنگ جیت لیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں شدت سے پوچھا جا رہا ہے۔ پاکستانی مخمصے سے دوچار ہیں۔ بین الاقوامی حمایت، امداد و کردار کے سلسلے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ اس طرح کے ابہام پذیر واقعات کی گواہی دیتی ہے۔ ہم آج تک اُس امریکی دغا کا ذکر کرتے ہیں جو اُس نے امدادی بحری بیڑا نہ بھیج کر ہمیں بھیج منجدھار میں لا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن تاریخ کا سچ یہ ہے کہ ایسا کوئی وعدہ سرے سے کیا گیا ہی نہیں تھا۔
عمران خان نے کہا ہے کہ ’ہم مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے‘۔لکھنؤ کے اردو بولنے والوں کا ’اِب کے مار‘ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا۔مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ بزدل ہیں،انھیں تھپڑ بھی پڑ جائے تو ردعمل صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ اِب کے مار۔کچھ ایسا ہی حال اس بار ہمارا کشمیر ہڑپ ہو جانے پر ہے۔ نہ ہماری کوئی حکمت عملی نظر آ رہی ہے اور نہ کچھ سوجھ رہا ہے کہ انڈیا کو جواب کیا دیں؟ بس ہمارا گزارا اسی پر ہے کہ ’اِب کے مار‘۔قومی قیادت کا امتحان آزمائش کے وقت ہی ہوتا ہے۔دوسری جنگِ عظیم جاری تھی اور برطانیہ کو آغاز میں شکست پر شکست ہو رہی تھی۔ اُن دنوں ریڈیو سے خبروں میں کہا جاتا کہ برٹش فورسز نے فاتحانہ پسپائی اختیار کی ہے۔ ’فاتحانہ پسپائی‘ کے الفاظ آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں۔آج اپنے ملکی حالات پر نگاہ ڈالتا ہوں، تو فاتحانہ پسپائی کے مناظر وقفے وقفے سے دیکھنے میں آتے ہیں۔
ایک زمانہ ایسا تھا جب آزادی اور خودمختاری کی تحریکوں کو دنیا بھر سے اخلاقی حمایت ملا کرتی تھی۔ آئرلینڈ اور فلسطین کی آزادی کو دنیا بھر میں عوامی حمایت حاصل تھی۔ ان دونوں تحریکوں کی خاص بات یہ تھی کہ تحریک کی قیادت سیاسی ہاتھوں میں تھی جبکہ مزاحمتی تنظیمیں پس پردہ رہ کر کام کرتی تھیں۔کشمیر میں سیاست اور مزاحمت کاری میں وہ ہم آہنگی کم رہی ہے۔چاہیے تھا کہ جس طرح کشمیر میں انڈیا غیر مقبول ہو چکا ہے حریت کانفرنس فقید المثال انتخابی کامیابی حاصل کرتی، دہلی جا کر مظاہرے کرتی مگر اس مقبول عام سیاسی راستے پر کام نہیں کیا گیا۔دوسری طرف پاکستان کی کشمیر پر خارجہ پالیسی مکمل ناکام رہی ہے۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ اگر وزیراعظم مودی نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمارا جواب کیا ہو گا۔ اب وزیر اعظم اپوزیشن سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ بتائیں ہم کشمیر پر کیا کریں۔ کیا باقی فیصلے اپوزیشن سے پوچھ کر کر رہے ہیں جو یہ فیصلہ انکی مرضی سے کریں گے۔کہاں تو آپ ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کے بیان پر بھنگڑے ڈال رہے تھےاور ورلڈ کپ جیتنے سے تشبیہ دے رہے تھے،اور کہاں اب یہ سوال کہ ہمیں بتائیں کیا کریں؟ کیا واقعی حکومت کشمیر کی صورتحال پر آؤٹ آف آئیڈیاز ہو چکی ہے ؟
گذشتہ 72 سالوں سے مسئلہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا نکتہ رہا ہے۔ قائد اعظم نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا، قائد ملت لیاقت علی نے کشمیر ہی کے مسئلے پر بھارت کو مکا دکھایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کشمیر کاز کے چیمپیئن تھے، بینظیر بھٹو نے تحریک آزادی کشمیر کا بھرپور ساتھ دیا۔جنرل مشرف نے کارگل کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی ناکام کوشش کی مگر کوشش تو کی۔ ایوب خان کے زمانے میں بھی منصوبہ بندی ہوئی۔ آپریشن جبرالٹر بھی ناکام ہو اتھا مگر کچھ کیا تو تھا۔اب تو شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے عوام احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔وہ شاہ محمود قریشی جو امریکی ’جاسوس’ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں حب الوطنی کے نام پر پیپلز پارٹی کی حکومت سےمستعفی ہو گیا تھا۔ کیا انڈیا کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر کوئی ایسا بہادرانہ موقف نہیں لیا جا سکتا، خدانخواستہ کہیں دوسرا سقوط ڈھاکہ ہو چکا ہے؟ خدانہ کرے ایسا ہو مگر صاف لگ رہا ہے کہ کشمیر میں فلسطینی ماڈل کے مطابق کام ہو رہا ہے اور ہم عرب دنیا کی طرح ‘اِب کے مار’ والی مزاحمت کر رہے ہیں۔
دنیا میں پاکستان کے بیانیہ کو پذیرائی نہ ملنا ہمارے لئے بڑا سوال ہے، خودوزیرخارجہ کا بیان دیکھیں کہ ہم سلامتی کونسل میں اپنی سفارتی لڑائی ہارے ہوئے دل کے ساتھ لڑنے جارہے ہیں، جب آپ خود ہار تسلیم کرلیں گے تو کون آپ کا ساتھ دے گا۔اوآئی سی کی جانب سے آنے والاردِعمل کافی کمزورہے۔ جب اسرائیل نے1967میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کےآخری مرحلے میں گولان ہائیٹس پرقبضہ کیاتھاتو 50سال پرانی اوآئی سی کارویہ محض ایک تماشائی کی طرح تھا، فلسطینیوں کومایوسی ہوئی تھی جب اس نےبظاہربغیرکسی احساس جرم کےسفارتی الفاظ سےبھرےصرف چندبیانات جاری کیےتھے، بالکل اسی طرح غالباًبھارت اسرائیل کی پیروی کررہاہے۔اگرایسا نہیں ہے تو اوآئی سی کے رکن ممالک کے ساتھ بھارت کے تجارتی اورکاروباری طاقت اتنی زیادہ ہے کہ اسکےتجارتی پارٹنراُسے نظراندازنہیں کرسکتے۔1990کےاوائل میں جب بوسنیا میں قتلِ عام کیاگیا تب سےملوسیوک کانام نسلی کشی کا مترادف بن چکا ہے،مودی ایڈولف ہٹلرکی تقلیدکرناچاہتا ہے۔57رکن والی اوآئی سی کے 53اراکین مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ مارچ2019میں اوآئی سی کے46ویں اجلاس میں بھارت کو بطورمہمان خصوصی بلاکر خوش کیاگیاتھا۔یہ 1969میں اوآئی سی کےبننے کےبعد سےاپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔اوآئی سی میں بھارت کی موجودگی عرب دنیاکی جانب سےاپنےروایتی موقف سےہٹنے کاواضح اشارہ ہے۔ دعوت نامےکی تحریرمیں لکھاتھاکہ بھارت کے بڑھتے ہوئے سیاسی اورمعاشی اثرورسوخ اوراسکی تاریخ اورتہذیب کےاسلامی حصےکی توثیق کرتےہیں۔یہ دعوت نامہ ایک ایسے وقت میں آیا جب بھارت پلوامہ ڈرامہ خودکش حملے میں سنٹرل ریزروپولیس کے41اہلکاروں کی ہلاکتوں پر ڈوبا ہوا تھا۔پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو کاٹنے کے درپے بھارت کی اقتصادی شہ رگ خام تیل کی شکل میں 6 مسلمان ملکوں کی مٹھی میں ہے لیکن بھارت سے سالانہ 208 ارب ڈالر کی تجارتی پارٹنر شپ اسلامی دنیا کے لئے اسکی مخالفت کرنے میں پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے۔
جموں و کشمیر کے عوام کو اب صرف سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت پر نہ ٹرخایا جائے بلکہ ٹھوس اقدامات کیے جائیں،پاکستان ریلیف ایجنسیوں اور اقوام عالم سے رابطہ کرکے ہندوستان کے ظلم کا خاتمہ ممکن بنائے۔پاکستان کی اولین ترجیح کشمیر ہونا چاہئے، پاکستان افغانستان میں کیا کردار اداکرسکتا ہے یہ دیکھنا پاکستان کا کام ہے، ان تمام تر معاملات میں کشمیر سے توجہ نہیں ہٹنی چاہئے، کشمیر کو چھوڑ کو افغانستان کے حوالے سے کوئی راستہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہوگا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر ابھی بھی یو این کے ایجنڈے پر موجود ہے اور ہندوستان جموں و کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل نہیں کرسکتا ہے، ہمیں صرف آرٹیکل 370 اور 35/Aتک محدود رہنے کے بجائے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کرنا ہوگی، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے شملہ معاہدہ ختم ہوگیا ہے جسکے بعد ایل او سی کی بھی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے، اب آزاد کشمیر کا کوئی شہری مقبوضہ کشمیر جاتا ہے تو اصولاً اسے روکا نہیں جاسکتا ہے۔
مسئلہ کشمیرپرپاکستان، بھارت کے خلاف مختصر مدتی دفاعی اور وسط مدتی جارحانہ اقدامات کرسکتا ہے۔اگرچہ کشمیریوں کی حمایت میں 15اگست کو بھارت کے 73ویں یوم آزادی کو پاکستان نے بطور’’یوم سیاہ‘‘منایا۔لیکن کیا پاکستان دنیا اور خطے کی بدلتی سیاسی صورت حال ،اپنی خودمختاری اور اقتصادی بقاء کو لاحق خطرات کا اندازہ لگا رہا ہے، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی سلوک کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔دنیا پہلی مرتبہ فتنہ پرور افراد کو حکمران کی صورت میں دیکھ رہی ہے جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، نیتن یاہواور نریندر مودی اس فہرست میں شامل ہیں۔ووٹوں کے حصول کے لیے اپنی عوام کے یہ مقبول رہنما اقلیتوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کررہے۔اسی تناظر میں بھارت کا آئندہ ممکنہ وزیراعظم بھارت کا موجودہ وزیرِداخلہ امیت شاہ ہوسکتا ہے، جو کہ کشمیر سے کشمیریوں کا صفایا چاہتا ہےاوراس نے 25لاکھ ہندئوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے کی تجویز دی تھی۔جسکا پرتشدد ردعمل دینے کو کشمیری تیار ہیں ، جب کہ یہ پاکستانی سیاست میں بھی شدت پسندی کا باعث بن سکتا ہے۔جبکہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان پرامن طریقے سے بھارت کے ساتھ مسائل حل کرے۔ایسی صورت حال میں پاکستان کیا کرسکتا ہے؟پاکستان ، بھارت کے خلاف دفاعی اور جارحانہ دونوں طرح کے طریقہ کار استعمال کرسکتا ہے۔دفاعی اقدامات کے طور پر سفارتی، سیاسی اور قانونی ذرائع کا استعمال یعنی یواین یو، این ایس سی، آئی او سی، آسیان، جی سی سی، ایس سی او، آئی سی جے، عالمی عدالت انصاف وغیرہ کر سکتا ہے۔ضروری ہے کہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر کے تمام پارٹیز کے سرکردہ لیڈران اور بیرون ملک کشمیریوں پرمشتمل ایک جلاوطن حکومت کا قیام کیا جائے اور اسکا دارلخلافہ مظفرآباد ہو جسے پاکستان فوری تسلیم کرےاور اسی طرز پر انڈیا کے اندر دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کی جلاوطن حکومتوں کو بھی تسلیم کرکے انڈیا پر پریشر بلڈ اپ کیا جائے۔دوسرا، پاکستان شملہ معاہدے اور لاہور معاہدے پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔تیسرا، اسلام آباد لائن آف کنٹرول کا ازسرنو تعین کرنے کی خواہش کا اعلان کرسکتا ہے۔اسی طرح اقتصادی پابندیاں جیسا کہ تجارت ختم کرنے کافیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے، اسی طرح بھارت پر مستقل فضائی پابندی کا فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔چوتھا، دہلی کا اثرورسوخ افغانستان میں محدود کرنا، ایران کو بھارت کے بجائے چین کی جانب راغب کرنا، یا چاہ بہار کا افغانستان سے راستہ محدود کرنا ۔بھارت زیادہ تر تیل،اور لیبر مارکیٹ مڈل ایسٹ، کویت، یو اے ای اور سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے، پاکستان وہاں اپنے خصوصی تعلقات کا استعمال کرکے بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ بھارت پر پراکسی کے ذریعے دباوڈالے۔طالبان کی ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل سے بھی پاکستان فائدہ اٹھا سکتا کیوں کہ تقریباً18سال بعد پاکستان ، بھارت کو افغانستان میں کمزور کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔پانچواں، جارحانہ طریقہ کار، پاکستان مستحکم مالیاتی اور زری پالیسی کے ذریعے اپنے آپکو اس قابل کرے کہ وہ کشمیریوں کی مالی امداد کرسکے، جیسا کہ بھارت ، بلوچستان میں کررہا ہےکیوں کہ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ اسلام آباد دیوالیہ ریاست ہے۔پاکستان ، کاروباری اور مالیاتی حوالے سے بھارت کے تشخص کو منفی طور پر پیش کرسکتا ہے ۔پاکستان کشمیریوں کو اپنے حق کے حصول کے لیے متحرک کرسکتا ہے۔اسلام آباد، بھارت کے مشرقی اور مغربی راہداری کے خواب کو چکنا چور کرسکتا ہے۔ہم بحیثیت قوم کشمیر کو نا تو بھول سکتے ہیں اور نا ہی کشمیر کو بھارت کے ہاتھوں میں دے سکتے ہیں اور نا ہی وہاں بھارتی بالادستی کو قبول کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں صرف سمجھ بوجھ کے ساتھ وسط مدتی جارحانہاور خود انحصاری خارجی پالیسیاں ہی کامیابی کا باعث بن سکتی ہیں!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔