کنکریاں -کاشف مرزا
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے مالی سال میں اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2018-19 پاکستان پر قرضوں اور واجبات کا بوجھ 29.9 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 40.2 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے یعنی صرف گذشتہ مالی سال میں قرضوں اور واجبات میں 10.3 ٹریلین روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔اگر ملک کی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جائے تو قرضوں اور واجبات کی یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کے 104.3 فیصد کے برابر جا کھڑی ہوئی ہے۔آئی ایم ایف کے کہنے پر روپے کی قدر کو بہت زیادہ گرایا، ڈسکاؤنٹ ریٹ اور شرحِ سود میں اضافہ کیا گیا۔صرف روپے کی قدر کو گرانےاور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے سے ملک کے مجموعی قرض میں 4400 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔گذشتہ حکومت جاتے ہوئے 850 ارب کے لگ بھگ گردشی قرضے چھوڑ گئی تھی اور موجودہ حکومت نے گذشتہ مالی سال کے دوران تقریباً 200 ارب روپے کے گردشی قرضے کلئیر کیے ہیں جسکے باعث بوجھ میں اضافہ ہوا۔حکومت کے پہلے سال میں حکومتی اخراجات میں مجموعی طور پر 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ محصولات میں چھ فیصد کمی ہوئی ہے۔ گذشتہ برس شرح سود میں ہونے والے لگ بھگ 7.5 فیصد اضافے کی وجہ سے مجموعی قرضوں میں تقریباً 724 ارب روپے کا مزید اضافہ ہوا ہے۔
رواں مالی سال پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کی شرح 2.8 فیصد تک رہنےکی توقع ہےاوررواں مالی سال کےمہنگائی کی شرح 12 فیصد تک جانے کا امکان ہے، بجٹ خسارےمیں کمی،تجارتی خسارہ میں کمی کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا، ترسیلات زرکےحجم میں اضافہ متوقع ہے، چین،امریکاجاری تجارتی تنازع کےباعث خطےکی شرح نمو میں کمی واقع ہوئی ہے۔مالی سال 2020ءکےدوران پاکستان میں جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 2.8فیصدتک رہنےکی توقع ہے۔ مالی سال کےپہلےماہ تجارتی خسارہ میں کمی ہوئی، جولائی 2018ءمیں تجارتی خسارہ کاحجم 3.4 ارب ڈالرتھا، رواں سال جولائی میں تجارتی خسارہ کاحجم 1.8 ارب ڈالر ریکارڈکیاگیا،یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہےگاجبکہ تارکین وطن سے ترسیلات زر کے حجم میں اضافہ متوقع ہےاورآنیوالے مہینوں میں پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کےحجم میں اضافہ کاامکان ہے۔
عالمی بینک نے بڑھتے قرضوں اور مہنگائی کی بلند شرح کے تناظر میں پاکستان کی معیشت کے غیر محفوظ ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا۔عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سال2020 میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔ میکرو اکنامک اصلاحات کی وجہ سے غربت میں کمی رکی رہے گی،غربت میں کمی رکنے کی دوسری وجہ شرح نمو میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہے۔سال 2019ء میں پاکستان میں ترقی کی شرح 3 اعشاریہ 3 اور 2020 میں 2 اعشاریہ 4 فیصد رہے گی، ترقی کی شرح میں کمی کی وجہ سخت مانیٹری پالیسی ہے۔ پاکستان میں ترقی کی شرح میں بہتری پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مشروط ہے، جسکے مہنگا ہونے سے پاکستان میں کرنسی کی شرح تبادلہ بھی بدلنے کا امکان ہے۔کرنسی کی شرح میں تبادلے میں اضافے سے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات معقول ہونے کی توقع ہے۔پاکستان میں ترقی کی شرح میں بہتری بین الاقوامی مارکیٹوں میں استحکام سے بھی مشروط ہے، پاکستان میں ترقی کی شرح میں بہتری سیاسی اور سیکیورٹی خطرات میں کمی سے منسلک ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے نتیجے میں لاکھوں افراد غربت کی لکیر کے نیچے چلے جائیں گےاور لاکھوں افراد بیروزگار ہوں گے کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ سخت اور غیر انسانی شرائط جڑی ہیں۔آئی ایم ایف نےپاکستان کی ممکنہ اصل مجموعی قومی پیداوار میں اضافے اور مہنگائی کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور رواں مالی سال 2019-20ءکیلئے انہیں بالترتیب 2.4؍ فیصد اور 13؍ فیصد پر رکھا ہے۔تاہم پاکستان میں بیروزگاری کی شرح مالی سال 2020ء میں 6.2؍ فیصد تک جائے گی، مالی سال 2019ء میں یہ شرح 6.1؍ فیصد ہے۔ پاکستان کی اصل جی ڈی پی مالی سال 2018ء میں 5.5؍ فیصد تھی جو مالی سال 2019ء میں کم ہو کر 3.3؍ فیصد پر آ گئی۔مہنگائی کے حوالے سے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ کنزیومر پرائس مالی سال 2018ء میں 3.9؍ فیصد پر تھا جو گزشتہ مالی سال 2019ء میں بڑھ کر 7.3؍ فیصد ہوگیا،اور 2020ء کے جاری مالی سال میں کنزیومر پرائس 13؍ فیصد تک جا سکتا ہے۔IMFنےپاکستان میں غربت،بیروزگاری کے اعداد شمار پر خاموشی اختیارکی،12لاکھ افراد ملازمتیں کھو چکے،غیرملکی قرضے بڑھ جائینگے۔3800ارب روپے کے ٹیکس ریونیو میں سے 2 ہزار 74 ارب حکمران اشرافیہ نے خر چ کئے۔حکومت نے 18اگست 2018سے 30ستمبر 2019 تک 24 ممالک اور اداروں سے دس ارب 36کر وڑ 81لاکھ دس ہزار ڈالر (10368.11ملین ڈالر)قرضہ حاصل کیا۔ملک کی معاشی صورتحال کچھ ماہ قبل خراب تھی لیکن اب بدترین ہے کیونکہ اہم اکنامک انڈیکیٹرز کے سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال بہت ہی مایوس کن ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد کوئی بہتری ظاہر کرنے کی بجائے ملک کی معاشی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔2018ء میں جی ڈی پی میں ترقی کی شرح 5.8 فیصد تھی لیکن معیشت کی سست روی کی وجہ سے یہ شرح 2019ء میں2.8فیصد یا اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔
جون 2019ء کے آخر تک مالی خسارہ بڑھ کر 3.4 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے جبکہ 2018ء میں یہ 2.2 کھرب روپے تھا, یہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔فیصدی لحاظ سے دیکھیں تو مالی خسارہ 8.9 فیصد ہو چکا ہے جبکہ 2018ء میں یہ 6.6 فیصد تھا۔ 8.9 فیصد مالی خسارہ گزشتہ 30 سال میں سب سے زیادہ ہے اور ویسے بھی دیکھیں تو پی ٹی آئی نے گزشتہ سال ستمبر میں خود اپنے لیے جو ہدف مقرر کیا تھا وہ 5.1 فیصد تھا۔ اپنے اہداف سے میلوں پیچھے رہ جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کو حالات کی سوجھ بوجھ ہی نہیں۔جون 2018ء میں مجموعی قرضہ جات 30 ہزار روپے تھے جو اب بڑھ کر 40 ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ ایک سال میں قرضوں میں ہونے والا یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ پاکستان کے 71 سال میں مجموعی قرضہ جات 30 ہزار ارب روپے تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت کے صرف ایک سال میں ان میں ایک تہائی تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسکی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی اور صورتحال اخراجات او آمدنی کے حوالے سے بد انتظامی کی عکاسی کرتے ہیں۔اگر یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو خدشہ ہے کہ پورا معاشی ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آ گرے گا کیونکہ ہماری معیشت میں اتنا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ 2018ء میں ٹیکس سے ہونے والی آمدنی ریکارڈ سطح پر تھی اور یہ 3800 ا رب روپے تھی۔ 2019ء میں ٹیکس ریونیو میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آمدنی کا موجودہ ٹارگٹ5550 ارب روپے حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ گزشتہ سال کے اصل جمع ہونے والے اعداد و شمار کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ ہے۔ 2018ء میں کساد بازاری،مہنگائی،انتہائی کم ترین سطح یعنی 3.9 فیصد پر تھی۔موجودہ حکومت میں یہ شرح 10.3 فیصد ہے۔
اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 2018ء کے وسط میں 6.50 فیصد تھا اور پی ٹی آئی حکومت میں یہ 13.25 فیصد ہے۔زرعی شعبہ بھی ایک فیصد کمی کے ساتھ زوال کا شکار ہے۔ کرنسی کی زبردست بے قدری کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 160 روپے تک گر گئی۔براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 50 فیصد کمی آئی۔ نتیجتاً مہنگائی بڑھ گئی، عام پاکستانی بری طرح متاثر ہوا ہے۔صرف گزشتہ ایک سال میں 45 لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں جبکہ 15 لاکھ لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق، جی ڈی پی میں افزائش کی شرح 2.4 فیصد رہے گی جبکہ مہنگائی کی شرح 13 سے 15 فیصد کے درمیان رہے گی۔ ڈسکائونٹ ریٹ میں مزید اضافے کا امکان ہے اور یہ 15 اور 16 فیصد تک رہے گا۔نتیجہ یہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران مزید 50 لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے، یہ اُن 4.5 ملین لوگوں کے علاوہ ہے جو گزشتہ ایک سال میں متاثر ہوئے۔ افزائش کی زوال پذیری کے ساتھ مزید 15 لاکھ پاکستانی بیروزگار ہو سکتے ہیں۔پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دو سال میں خدشہ ہے کہ 30 لاکھ پاکستانی بیروزگار ہو جائیں گے جبکہ پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ پانچ سال میں ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دیں گے۔حکومت نے اعتراف کیا کہ معیشت کی بہتری کا سفر آسان نہیں کیونکہ ٹیکس کی رسیدوں میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس نے کہا کہ معاشی محاذ پر چیلنجز ہیں لیکن تنقید میں شفافیت کا عنصر ہونا چاہئے۔نئی حکومت کی نیا پاکستان پالیسی نے ملک کی معیشت کا بخیّہ اُدھیڑ دیا ہے۔ غریب، امیر، صنعتکار، بزنس مین غرض ہر طبقہ ہی پریشانی اور بے چینی کا شکار ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ حکومت کے پاس ایک بڑی ٹیم معاشی ماہرین کی ہے مگر یہ اکنامسٹ نہیں ہیں، یہ بین الاقوامی مالی اداروں کی پالیسی کے نافذ کرنے والے ہیں اور ان بین الاقوامی مالی اداروں کی پالیسی اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ چیدہ چیدہ ملکوں کی معیشت کو آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پرتباہ کر کے انہیں قرض کے ذریعے غلام بنا دیا جائے۔
پاکستان کی مڈل کلاس تیزی سے ختم ہور ہی ہے، قوت خرید میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، معیشت جمود کا شکار ہے۔ ایک سال میں شرح سود 13 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ شرح نمو 2.4 فیصد تک گر چکی ہے۔ملک میں کاروں کی خریداری میں 39جبکہ موٹر سائیکلوں کی خرید میں 17 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اشیا خوردونوش اور بجلی کی قیمتوں میں خوش شربا اضافہ ہوا ہے۔صحت اور تعلیمی نظام میں اصلاحات نہیں ہو سکیں۔کاروباری طبقہ تکلیف سے دو چار،متوسط طبقے کے لوگ مر رہے ہیں۔اگلے سال 20 لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم ، 80 لاکھ غربت کی لپیٹ میں آجائیں۔2018ء میں جی ڈی پی 313؍ ارب ڈالرز تھی جبکہ اب 33؍ ارب ڈالرز کی کمی کے ساتھ جی ڈی پی 280؍ ارب ڈالرز کی سطح پر نیچے آگئی ہے جسکا مقصد صرف چار ارب ڈالرز کی درآمدات میں کمی لانا ہے۔ نتیجتاً جی ڈی پی زوال پذیر ہے جبکہ فی کس آمدنی 8؍ فیصد کم ہوگئی ہے۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا شعبہ منفی رجحان کا شکار ہے اور پیداوار ایک سال کے دوران کم ہوگئی ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم نے عالمی مسابقتی رپورٹ 2019 جاری کر دی ہے جس کے مطابق 3درجے تنزلی کے بعد عالمی معیشت میں پاکستان 110ویں نمبر پر چلا گیا۔معاشی استحکام کے لحاظ سے 13درجے تنزلی ہوئی اور پاکستان 103سے 116نمبر پر چلا گیا، مسابقت کے 12 ستونوں اور 103 اشاریوں میں سے اداروں سے متعلق درجہ بندی میں پاکستان 107 پوزیشن پر ہے۔پاکستان کی درجہ بندی میں تنزلی ہوئی ہے،مسابقتی لحاظ سے 141 ممالک کی معیشت کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 107 سے گر کر 110 ہو گیا ہے۔بڑھتا غیر فعال قرضہ پاکستانی معیشت کو بحال کرنے میں نیا خطرہ بن سکتا ہے۔آٹھ سال میں پاکستان کے غیر فعال قرضوں میں بلند ترین اضافہ ہوا جون سے اب تک غیر فعال قرضوں کی شرح 23 فیصد بڑھی ہے بلند شرح سود قرض کی ادائیگی میں مشکلات پید اکر رہی ہے ۔صنعتی پیداوار متاثر ہوئی ہے ورک فورس کم کی گئی ہے قومی بینکوں کے بڑھتے غیر فعال قرضے دینے کی صلاحیت کو متاثر کر رہے ہیں۔پاکستان کے غیر فعال قرضوں میں اضافہ آٹھ سال میں بلند ترین ہے، بلند شرح سود قرض کی ادائیگی میں مشکلات پید اکر رہی ہے ، حکومت نے نمو کا ہدف 2.4 فیصد کردیا ہے ایک دہائی میں معاشی نمو کا ہدف کم ترین ہے۔یہ سب کچھ دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے ایک سال میں حاصل کیے گئے 12 ارب ڈالرز کے باوجود ہے۔صرف ایک چیز جو موجودہ حکومت کے دور میں گزشتہ ایک سال میں بہتر ہوئی وہ ہے جاری کھاتوں کا خسارہ۔ مالی سال 2018ء میں یہ خسارہ جی ڈی پی کا 6.3 فیصد یعنی 19.897 ارب ڈالرز تھا جو اب کم ہو کر 2019ء میں جی ڈی پی کا 4.8 فیصد یعنی 13.508 ارب ڈالرز ہو چکا ہے۔یہ بہتر ہے کہ جاری کھاتوں کا خسارہ برآمدات بڑھا کر کم کیا جائے کیونکہ اس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم حکومت نے یہ کام برآمدات میں اضافہ کیے بغیر کیا ہے اور اس مقصد کیلئے درآمدات کو کم کیا گیا۔
یہ ہماری قومی اور مِلّی بدقسمتی ہے کہ 1947میں آزادی کے بعد، گزشتہ سات دہائیوں میں، پاکستانی معیشت ہمیشہ ڈگمگاتی رہی اور ہم معاشی آزادی اور خود انحصاری نہ حاصل کر سکے۔ آزادی کے بعد اقتدار میں آنے والی مختلف حکومتیں، بیرونی طاقتوں اور بیرونی ملکوں کے قرضوں اور مالی مدد کی دست نگر رہیں۔ ان ستر سالوں میں عارضی معاشی ترقی کے چھوٹے چھوٹے دور تو آئے مگر حکومتی اقتصادی پالیسیوں میں خامیوں کی وجہ سے اقتصادی ابتری بڑھتی رہی یعنی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ساٹھ کی دہائی میں متحدہ پاکستان 6.8فیصد کی اوسط شرح سے اقتصادی ترقی کررہا تھا۔ ستر کی دہائی میں یہ شرح بڑھنے کے بجائے گھٹ کر 4.8فیصد اوسط رہ گئی۔ دوسری طرف اِسی عرصے میں آبادی ساڑھے چھ کروڑ سے بڑھ کر ساڑھے آٹھ کروڑ ہوگئی۔ جسکی وجہ سے عوامی مشکلات اور بڑھ گئیں۔ملک کی موجودہ معاشی حالت اور معیشت پر قرضوں کے بوجھ کا موازنہ اگر نوے کی دہائی کے آواخر میں پاکستان کو درپیش معاشی حالات سے کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں ملک کے سیاسی اور معاشی حالات کافی مخدوش تھے جبکہ پاکستان پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے باعث عالمی سطح پر شدید معاشی پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔اگرچہ اب پابندیاں تو نہیں ہیں مگر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ملکی معیشت پر پڑے قرضوں کے بوجھ کے حوالے سے حال ہی میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات ملک کی معیشت کے مجموعی حجم سے بھی بڑھ چکے ہیں۔تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی ملک نے محض قرضوں یا امداد پر معاشی استحکام کی منزل پائی ہو، دنیا میں جس نے بھی ترقی کی اس نے معیشت کو مقامی بنیادیں فراہم کیں اوراپنے وسائل کو بروئے کار لایا اوراقتصادی و کاروباری سرگرمیوں پر توجہ دی۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکا۔وقت آگیاکہحکومت نہ صرف کاروباری ماحول وافراد کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ محکمے بندھے نظام سے آزادی حاصل کریں جو نا صرف فرسودہ ہو چکا بلکہ دنیا بھر میں متروک بھی ہے!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔