
کاشف مرزا ۔ کنکریاں
وزیراعظم نے بیوروکریسی کے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی منظوری دے دی ہے جسکے تحت سول سرونٹس کی ترقی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی۔سول سرونٹس آف پاکستان کے قوانین میں نئی اصلاحات کے تحت 20 سال ملازمت کرنے والے ملازمین کو کاردکرگی کی بنیاد پر ترقی دی جائے گی۔تمام ملازمین کا بیس سال بعدکمپلسری ریویو ہوگا جبکہ 20سال مکمل کرنے والے ملازمین کے لئےکارکردگی کاجائزہ لازمی قرار دے دیا گیا۔سول سرونٹ کی ملازمت برقرار رہ سکے گی یا نہیں فیصلہ بورڈ کرے گااوربورڈ کےعدم اطمینان کی صورت میں افسر کو ریٹائرڈ کیا جا سکے گا،اسکے لئے اے سی آر میں بہتر رینکنگ بھی کارکردگی سےمشروط کر دی گئی۔20اور21گریڈ میں ترقی کے لیے20 فیصد افسران اہل ہوں گے،گریڈ 21 میں ترقی کے لیے صوبے سے باہر سروس کرنا ضروری ہوگااورمردوں کوپہلے5 سال خواتین کو3سال دوسرےصوبوں میں سروس کرنا ہو گی۔جو سول سرونٹ ایک صوبےمیں10برس سےزیادہ قیام کرےگا اسے ترقی نہیں ملےگی جبکہ 19سے20گریڈمیں ترقی کے لیے افسران کی ہارڈ ایریاز میں سروس لازمی کرنی ہوگی۔سول سروس اصلاحات کے تحت ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن رولز بھی بنائے گئے ہیں،جسکے مطابق بےضابطگی کی تحقیقات کرنےوالاانکوائری افسر 60 دن میں رپورٹ جمع کرانےکاپابندہوگا،اگر رپورٹ درست نہیں ہوگی تو انکوائری افسر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے یکم جولائی 2020ءسے سول سرونٹ سسٹم میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس میں اہم تبدیلیوں کی منظوری دی ہے جسکی رو سے مستعد اور قابل افسران کو ملازمت پر برقرار رکھا جائے گااور نااہل افسران فارغ کر دیے جائیں گے۔نئے قانون کے تحت اس جائزے کے لیے سینئر سیکریٹریوں اور وفاقی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین پر مشتمل کارکردگی بورڈ بنایا جائے گا جسکی سفارش پر متعلقہ سول سرونٹ کی ملازمت برقرار رہ سکے گی یا عدم اطمینان کی صورت میں اسے ریٹائر کیا جا سکے گا۔نئے قانون میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کسی اہلکار کے خلاف اگر انکوائری رپورٹ میں خرابی پائی گئی تو انکوائری افسر کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سول سرونٹس میں نہایت قابل،مستعد،ذمہ دار،ایماندار افسروں کی کمی نہیں لیکن غیر ذمہ دار افراد بھی ان ہی کی صفوں میں پائے جاتے ہیں جنکی گزشتہ چند دہائیوں میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے حوصلہ افزائی ہوئی۔اس صورتحال میں قومی مفاد پر ذاتی فائدوں کو ترجیح دینے والے افراد اپنے لیے اس شعبے کا انتخاب کرنے لگے جسکی بنا پر اس میں بنیادی اصلاحات ناگزیر ہو گئی ہیں۔
پی ٹی آئی نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سروسز کے اندراحتساب کا نظام بنائے گیجسکے تحت مستعدسول سرونٹس کو ملازمت پر برقرار رکھا جائے گااور نااہل افسروں فارغ کردیا جائے گا۔اسی مقصد کے پیش نظر متعلقہ قوانین میں ترقی کے قوانین بنا دیے گئے ہیں۔ان قوانین کے تحت پروموشن کے لیے معیارمیں اضافہکیا گیااوراسےبھی کردیا گیا ہے۔جسکے تحت ایفیشینسی انڈیکس میں گریڈ 18سے 21ترقی کے تھریش ہولڈکےلیےتمام سروسز کے لیے یکساں طور پر 60 فیصد ،65فیصد، 65فیصد، 70 فیصداور 75 فیصد لازم کر دیے گئے ہیں۔ان نئے قوانین کے مطابق DPC اور CSP کرائی جاچکی ہیں۔اسی طرح ترقی کے امید وار افسر کو اپنے اثاثوں کا ڈیکلیریشن جاری کرنے کے علاوہپروموشن بورڈ سے 15کے مقابلے میں30 نمبروں میں سےاطمینان بخش نمبر حاصل کرنے ہوں گے۔ان قوانین پر اسی سال یعنی 2020ءمیں عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔اصلاحات کے مطابق سول سروسز ایکٹ مجریہ 1973ءکے سکیشن 13 کے تحت قوانین بنا دیے گئے ہیں۔ جنکےتحت بیس سال کی ملازمت مکمل کرنے والے سرکاری ملازم کے لیے کارکردگی کا جائزہ لازمی کردیا گیا ہے۔نئے قانون کے تحت اس جائزے کے لیے حکومت پاکستان کے سینئر سیکریٹریز اور فیڈرل پبلک سروس کے چیئرمین پرمشتمل پرفارمنس ایویلیویشن بورڈ بنایا جائے گا۔جسکی سفارش پر کسی سول سرونٹ کی ملازمت برقرار رہ سکے گی یا بورڈ کے عدم اطمینان کی صورت میں اسے ریٹائر کیا جاسکے گا۔
صوبوں میں چونکہ وفاقی افسروں کی پوسٹیں خالی رہتی تھیں،جسے ریشنلائزیشن کے زریعےان پوسٹوں پر پُر کرنے کےلیے چھ سو سے سات سو پوسٹیں صوبوں میں تقسیم کردی گئی ہیں تاکہ انھیں پُر کیا جاسکے۔اصلاحات کے تحت وفاقی حکومت میں نشان زدہ وزارتوں میں PAS اپنی BPSکی تیس فیصد نشستیں ٹیکنکل ایکسپرٹس دے رہے ہیں۔امیدواران مقابلے کےعمل سے گزر کریہ پوسٹیں حاصل کرسکیں گے۔یہ قانون پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں عوام سے کیے گئے اس وعدے پر عمل درآمد کے لیے کیا گیا ہے جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ Right Person on the Right Job۔اصلاحات کے تحت اباسپیشیلسٹ اور جرنلسٹ کے درمیان توازن قائم کردیا گیا ہے،PASاورPSPکےافسروں پر مشتمل ایکSector Specialisاباسپیشیلسٹ بنایا جائے گا۔اس گروپ کے گریڈ 17اور18کےافسران کوئی صوبائی یا علاقائی زبان سیکھیں گےاور بہترین عوامی خدمت کے لیے(Public Service Delivery Better )کے لیےایک Public Service Initiativeپر عمل درآمد کریں گےاوراسکی کیس اسٹڈی بھی تیار کریں گے۔اصلاحات کے تحت آفیشل مینجمنٹ گروپ کے افسران فیڈرل سیکریٹریٹ میں تین تین سال کی دو مدتیں مکمل کریں گے،جب یہ افسران گریڈ 19 میں ترقی کرجائیں گے تو ان کی مہارت کے مطابق انھیں بیرون ملک تربیت کے لیے بھیجا جائے گا۔اصلاحات کے تحت وفاقی سیکریٹریٹ میں PAS کی تیس فیصد نشستوں پر چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اورا ٓزاد جموں و کشمیر کےافسران کو PAS میں شامل کیا جاسکے گا۔
پرفارمنس مینجمنٹ اصلاحات کے تحت وزیراعظم اور وزیر کے درمیان پرفارمنس کے معاہدے پر ہر سال دستخط ہوں گے،جس پریکم جولائی 2020ءسے عمل درٓمد شروع ہو جائے گا ۔اسکے پائلٹ پروجیکٹ پر اس پیر کو 9 وزارتیں وزیر اعظم کےساتھ معاہدے پر دستخط کریں گی۔اس معاہدے کے تحت یکم جنوری 2020ءسےلے کر 30جون 2020ءتک کا پر فارمنس ایگریمنٹ ہوگا۔ان نو وزارتوں کے علاوہ باقی تمام وزارتوں میں اس پرفارمنس ایگری منٹ کا اطلاق یکم جولائی 2020ءسے نافذ العمل ہوگا۔اس پرفارمنس ایگری منٹ کے تحت تمام افسران کی جاب ڈسکرپشن اورKPIپرفارمننس انڈی کیٹرز بنائے جارہے ہیں۔ا س سلسلے میں 24وزارتوں میں کام مکمل کرلیا گیا ہے،باقی کام آئندہ چند روز میں مکمل کر لیا جائے گا۔اسکا اطلاق یکم جولائی 2020ءسے ہوگا۔اصلاحات کے تحت پرفارمننس ای ویلیو ایشن رپورٹ(PER) کیلنڈر سال کے بجائے مالی سال کے ساتھ منسلک کر دی گئی ہے۔ان KPIsکی روشنی میں ایک پروفارمابھی تیار کیا جارہا ہے۔اس پرفارمے میں Forced آؤٹ اسٹینڈنگ 20فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے تاکہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنےوالے سول سرونٹ کو جزا اوربری کارکردگی کا مظاہرہ کرنےوالےکےلیےسزا کا تعین کیا جاسکے۔
پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروسزسابقہ ڈی ایم جی / سی ایس پی کا دہائیوں پرانا غلبہ ختم کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نےاس بااثر گروپ کی40فیصد600کی تعداداسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہےاوریہ اسامیاں صوبائی سروسز اور تکنیکی ماہرین کو وفاقی سطح پر دینے کا فیصلہ کیاہے۔سول سروس میں کی جانے والی تازہ ترین اصلاحات کی منظوری وزیراعظم اور کابینہ نے دی ہے،انکے نتیجے میں سول سروسز میں عہدہ محفوظ رکھنےیاکسی حق کے تحت ملنے کیبجائے کارکردگی اوراہلیت کی بنیاد پرسب کیلئے کھل جائیں گی۔وفاقی سطح پر پی اے ایس گروپ سے200جبکہ صوبائی حصے میں سے 400اسامیاں کیڈر سے خارج کی گئی ہیں۔منظور کردہ اصلاحات کے مطابق، پی اے ایس کیڈر میں اسامیاں 1900ہیں جن میں 600 کی کمی کرکے انہیں 1300 کی سطح پر لایا جائے گا۔ صوبائی سطح پر یہ اسامیاں جو پی اے ایس سے کم کی گئی ہیں پر صوبے اپنے صوبائی سول سروس افسران سے پُر کریں گے۔
وفاقی سطح پر وفاقی سیکریٹریٹ میں منتخب وزارتوں کی 200 پی اےایس اسامیاں مسابقتی عمل کے تحت تکنیکی ماہرین سے پُر کی جائیں گی۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ بیوروکریسی میں اعلیٰ سطح پر سول سروس میں تکنیکی ماہرین اوراسپیشلسٹ کی ترقی کے امکانات مناسب ہوں گے۔اس اقدام کے نتیجےمیں اسپیشلائزیشن کا کلچر فروغ پائے گا۔انکے نتیجے میں بیوروکریسی سے پرانا گند صاف کرنے میں بھی مدد ملے گی۔نئی اصلاحات کے نتیجے میں حکومت کارکردگی نہ دکھانے والے اور غیر موثر سرکاری ملازمین کو قبل از وقت یعنی صرف 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائر کر سکے گی۔منظور کردہ دستاویز میں لکھا ہے کہ 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائرمنٹ کے آپشن پر حکومت نے کبھی عمل نہیں کیا، نتیجتاً سب کو 60؍ سال تک ملازمت کی یقین دہانی رہتی تھی اور باصلاحیت اور مسابقتی عمل کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی، 20؍ سال کی سروس کے بعد باقاعدگی کے ساتھ نظرثانی کا عمل ہوگااورحکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائر کرنے کا آپشن موجود ہوگا۔اسکے نتیجے میں صلاحیت میں اضافے اور مقابلے کا ماحول پیدا ہوگا اور نا اہل افسر کا صفایا ہو جائے گا۔منظور شدہ اصلاحات میں مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن میں ایولیوشن ،پروموشن، تربیتی پہلو وغیرہ شامل ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں روٹیشن پالیسی پر عمل کی بات بھی کی گئی ہے جس پر من و عن عمل کیا جائے گا،توقع ہے کہ پی اے ایس اور پولیس سروس آف پاکستان گروپ کے افسران اسکی مزاحمت کریں گے۔اس بات کا رجحان پایا جاتا ہے کہ پی ایس پی اور پی اے ایس گروپ کے افسران طویل عرصہ تک ایک ہی صوبے سے چپک جاتے ہیں اور عملاً صوبائی سروس بن جاتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تجربے کی ورائٹی ختم ہو جاتی ہےاور غیر جانبداریت کا نقصان ہوتا ہے۔اس سے آل پاکستان سروسز کے خیال کو بھی نقصان ہوتا ہے۔لہٰذانئی روٹیشن پالیسی متعارف کرائی گئی ہے جسکے تحت پی اے ایس اور پی ایس پی افسران کی پہلی ایلوکیشن انکے ڈومیسائل کے صوبے سے باہر کی جائے گی، گریڈ 17اور 18 کے مرد افسران کیلئے اپنے صوبے سے باہر پانچ جبکہ خواتین کیلئے تین سال کی لازمی شرط ہوگی۔20گریڈ میں ترقی کیلئےضروری ہوگا کہ کم از کم دو سال سخت علاقوں میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔یہ شرط خواتین پرلاگونہیں ہوگی۔فی الوقت بلوچستان اور گلگت بلتستان کو سخت علاقےسمجھاجاتاہے۔کسی بھی پی اے ایس اور پی ایس پی افسر کواسلام آباد یا ایک ہی صوبے میں 10؍ سال تک خدمات انجام دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔گریڈ 21میں ترقی کیلئے شرط یہ ہوگی کہ 10سال کی تکمیل پر دیگر صوبوں یا اسلام آباد ٹرانسفر کی جائے گی۔اس بات کوسمجھتے ہوئے کہ بیوروکریسی میں ضابطے کی کارروائی اوراحتساب کاعمل غیرموثر ہے،حکومت نے کارکردگی اورضابطے کیلئے بھی نئے قواعد و ضوابط کی منظوری دی ہے جنکے تحت مجاز افسران کا Tier ختم کر دیا گیا ہےاوراب انکوائری افسر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی انکوائری 60؍ روز میں مکمل کرے۔مجاز اتھارٹی کیس کا فیصلہ 30؍ دن میں کرے گی۔ ان اصلاحات میں نئے جرمانے بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں جرمانہ،سابقہ سروسز کی ضبطی اورخرد بردکردہ رقم کی ریکوری شامل ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بجا طور پر سول بیورو کریسی کی نبض پر ہاتھ رکھا ہےاوراس کام کابیڑہ اٹھایاہےجو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔موجودہ نظام میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں،جن میں سرِفہرست بدعنوانی ہے اور قومی معیشت کے بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی خرابی ہے۔جسسے اس شعبے میں سیاسی مداخلت بھی بڑھی ہے سول بیورو کریسی ریاستی مشینری کا مقتدر ترین اورانتہائی حساس شعبہ ہے جسکا ہر طرح کے نقائص سے پاک ہونااہم قومی ضرورت ہے۔حکومت بیورو کریسی کی سروس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لارہی ہے۔دوسری طرف دیکھنا یہ ہے کہ ان اصلاحات سے سرکاری افسران کی امیدیں کس حد تک پوری ہوتی ہیں۔تبدیلیاں بیوروکریسی اورملکی نظام کےلیےسودمند ثابت ہوں گی یانہیں،اسکا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔