وقاص اے خان
صحافی-ماہر تعلیم – وکیل
جب حسین خاں والا کے سینکڑوں بچوں سے زیادتی ہوئی ، جب زینب سمیت 7 دیگر بچیوں نے اپنی عزت لٹائی اور جب چونیاں کے 4 بچے ناکردہ گناہوں کی بھینٹ چڑھے اور زیادتی کے بعد قتل کیے گئے ہر بار، بار-بار میڈیا کو سلانے، عوام کو بہلانے کو ایک ہی بات کہی گئی کہ ضلع قصور کو ماڈل ضلع بنایا جائے گا، تمام بڑے شہروں کو سیف سٹی پراجیکٹ میں لایا جائے گا، ڈولفن فورس مستقل لگائی جائے گی، 1200 نئے اہلکار دیے جائیں گے، تھانوں کو بہتر کیا جائے گا، قصور پولیس کو فنڈز اور ریسورسز دئیے جائیں گے، ضلعے کو بہتر پولیسنگ کے لیے انتظامی طور پر دو حصوں می تقسیم کیا جائے گا. لیکن ہر بار ابھی بچوں کی لاشوں کے کفن بھی میلے نہیں ہوتے کہ سب خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور ہم کسی نئے واقعے، کسی نئے سانحے کے انتظار میں جت جاتے ہیں.
یہ سالوں پرانی ڈگڈگی ہے جو ہر بار کسی نہ کسی سانحے پر بجائی جاتی ہے. اب کی بار پھر ایسا ہی ہوا ہے. نہ ماڈل ضلع بنا، چونیاں سیف سٹی، پتوکی سیف سٹی، چھانگا مانگا اور الہ آباد سیف سٹی، پھولنگر اور کوٹ رادھا کشن سیف سٹی، کھڈیاں سیف سٹی سب خواب ختم ہو چکے. ابتدا ہی نہیں ہوئی اور منصوبہ ختم کر دیا گیا کیونکہ میڈیا کی توجہ ہٹ چکی. ڈولفن فورس ایک ماہ کے لیے آئی اور پھر جیسے ہی میڈیا کا موضوع بدلا حکومت کی ترجیحات بھی بدل گئیں. نئے اہلکار کیا آنے تھے قصور ماڈل پولیس پراجیکٹ ہی ختم کر دیا گیا. ایک روپے کا ماڈل پولیس فنڈ جاری نہیں ہوا. تھانے بھی وہی رہے.
وہی چھتر وہی مٹکے، ڈی پی او قصور. زاہد نواز مروت نے چند تھانوں میں ادھر ادھر سے بچا کر رنگ روغن فلیکس وغیرہ لگوائے لیکن کہاں تک. جب ریاست کی ترجیح ہی بدل گئی تو کوئی کیا کرے. تبدیلی اور ماڈل پولیسنگ کا خواب دیکھنے اور اسے شروع کرنے والے آر پی او سہیل حبیب تاجک کو شیخوپورہ سے نکال کر راولپنڈی بھیج دیا گیا اور ان کی جگہ ایک ایسے آر پی او کو لایا گیا جو نہ کبھی آج تک قصور میں نظر آئے ہیں اور نہ ہی انہیں قصور سے کوئی دلچسپی ہے. چونیاں واقعے کے بعد قصور کے گنجان آباد ترین حصے جو ضلعی صدر مقام قصور شہر سے 50-80 کلومیٹر دور ہیں اور جہاں کے عوام کو اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لیے ڈی پی او آفس قصور کے چکر لگانے ہوتے ہیں کے پولیس سے بہتر رابطے اور مسائل کے مقامی سطح پر حل کے لیے پتوکی، چونیاں، پھول نگر، چھانگا مانگا، جمبر اور الہ آباد کے پولیس انتظامی کنٹرول میں بہتری کے لیے ایک ایڈیشنل ایس پی کی سپیشل سیٹ بنائی گئی تھی جب ریسورسز نہیں تھے، ڈی پی او اور ایڈیشنل ایس پی میں اختیارات اور آپریشنل پروسیجرز کی تقسیم واضح نہ تھی،
جب ایک روپے کا فنڈ نہیں تھا، جپ ایس او پیز نہ تھے تو ڈی پی او قصور اور ایڈیشنل ایس پی کے درمیان پاور کنفلکٹ کے علاوہ پولیسنگ کوالٹی میں بھی کوئی اضافہ دیکھنے میں نہ آیا. لہذا اب کل یہ سیٹ بھی ختم کر دی گئی ہے. راشد ہدائت کی واپسی سے ماڈل پولیس اور ماڈل ضلع پراجیکٹ کی آخری امید بھی ختم ہو گئی ہے. اب راوی چین لکھے گا جب تک کوئی نئی زینب کوئی نیا علی حسین اپنی جان کسی جنسی درندے کے سپرد نہ کر دے. قصور!!!! تیرا کیا قصور ہے آخر!!!!!