
پاکستان کے پرائیویٹ سکولز پاکستان کے تعلیمی نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی سے زیادہ اہم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معشیت کو بھی سپورٹ کر رہے ہیں۔اسکے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار پرائیویٹ سکولز سے وابستہ ہے۔کورونا وائرس کی وبا کے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینے کے ساتھ ہی جہاں باقی پورا ملک بند پڑا ہے تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام رک سا گیا ہے اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہو کے بیٹھ گئے ہیں،جہاں پورا ملک اس وباسےمتاثر ہےوہاں پرائیویٹ سکولز بھی شاید سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں،جنہیں فروری سے ہی مکمل بند کردیا گیا۔لیکن کچھ ناپختہ ذہن لوگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خلاف منفی پراپوگنڈہ بڑے فخریہ انداز سے کرنے میں مصروف ہیں۔
پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نےانسانیت کے جذبہ تحت اور کورنٹائیں سے نبٹنے کے لیے ملک بھرکےمستحق طلبا کی فیس ادائیگی کے لیے کرونا ایجوکیشنل ریلیف فنڈقائم کر دیاہے،ناصرف یہ بلکہ وزیر اعظم پاکستان اور صوبائی وزراءاعلی کوملک بھر کے2لاکھ پرائیویٹ سکولز بطورآئسولیشن سنٹرزاور قرنطینہ سنٹرز بنانیں اور 15 لاکھ ٹیچرز بطور والیئنٹیرز پیشکش بھی کر دی گئی۔حالانکہپرائیویٹ سکولزپہلے ہی ملک بھر میں اپ گرڈیشن،ڈیجیٹیلائیزیشن اور گلوبلائزیشن کے لئے کام کر رہا ہےاورقومی ترقی میں مصروف عمل ہے۔اس مشکل کی گھڑی میں بھی پرائیویٹ سکولز نے فوری طور پر تعلیمی نظام جو جاری رکھنے کے لئے نا صرف ڈیجیٹل سکول مینیجرکو متعارف کروایا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اسکول لیڈرز کے لئےلاک ڈاؤن میں سٹوڈنٹس اور والدین کو آن لائن رابطے میں رکھنےاورتعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے فری کنسلٹنسی سروس کا بھی آغاز کر دیاجس سےوالدین اور طلبا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف ملک بھر میں وفاق اور تمام صوبائی حکومتوں نے کرونا وائرس کےنام پر سستی شہرت اور پوائینٹ سکورنگ کے لئے غیر قانونی اقدامات کرتے ہوئےفیسوں میں20 فیصدکمی کےکچھ ایسے نوٹیفیکیشن کیے جنکو ملک بھر میں ناصرفصدرآل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نےمسترد کردیابلکہ والدین بھی اسےناکافی قراردےکر ناخوش ہیں۔اننوٹیفیکیشنز کو ملک بھر کی اعلی عدلیہ میں چیلنج کیاگیا،جبکہ پنجاب میں حکومت نےنجي اسکولوں کي فیس میں کمی کانوٹیفیکیشن کرنے کی بجائےمحض ٹوئیٹ کو ہی قانون جانا اور لاقانوننیت کی انتہا کرتے ہوئےوزیر تعلیم نے والدین کواکسایاکہ اگر سکولز انکےٹوئیٹ پرعمل نہ کریں اور فیس میں20 فیصدکمی نہ کریں تو وہ سکولز کو فیس جمع نہ کروایں۔ان حالات میںآل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نے لاہور ہائیکورٹ سےرجوع کیااور حکومت کومجبوراًپرائیویٹ سکولزکو سکولز آفس کھولنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا پڑا۔سندھ ہائیکورٹ نے بھی حکومتی نوٹیفیکیشن کو بغیر قانونی اختیار قراردیا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک بھر میں ایسے نوٹیفیکیشن صرف پرائیویٹ سکولزکیلیے ہی جاری کیے گئے اورتعلیم کے کسی دوسرے شعبہ جات،کالجز،یونیورسٹیز وغیرہ سمیت کسی دوسرے شعبہ یا کاروبار زندگی کے لیے نہ کر کے انتہائی غیر آئینی اورامتیازی سلوک کیا گیا ہے۔
بعد ازاںپنجاب اورسندھ حکومت نےنجي اسکولوں کي فیس میں کمی کاایک ایسا آرڈیننس جاری کردیا،جسمیں کہا گیا ہے کہ حکومت ہنگامی حالات میں نجی اسکولوں کوکسی بھی حد تک فیس کمی کے احکامات جاری کرسکتی ہےاوراسی روزنتیجتاحکومت نےفیسوں میں20 فیصدکمی کانوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا۔دوسری طرف آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نےفیسوں کے حوالے سے نوٹیفکیشن کوآئین کے آرٹیکل 18،3،4،5اور25(1)سےمتصادم، امتیازی وغیر قانونی قرار دیتے ہوے یکسر مسترد کردیا ہےاورکہاہےکہ حکومت کا فیس میں 20 فی صد کمی کا نوٹیفیکیشن عدالت میں چیلنج کیا جائے گا،فیس بارے سپریم کورٹ کے فیصلے کےپابند ہیں، کنفیوژن پیدا کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے حکومت یہ فیصلہ واپس لے،کیونکہ ٹیچرز کی تنخواہیں فکس ہیں اور ملک بھر میں 90 فیصد اسکولز کی عمارتیں کرائے پر ہیں۔وزیر اعظم پاکستان سے پرائیویٹ سکولزکیلیے ’’تعلیمی ریلیف پیکیج ‘‘ کی استدعا اوروزیر اعظم سمیت چیف جسٹس پاکستان سے داد رسی کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
25کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے لیکن افسوس آج بھی ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق 5 سال سے لے کر 16 سال کی عمر تک کے بچوں کو مفت تعلیم دینا گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں آبادی 57 فیصد بڑھی ہے ،جبکہ گورنمنٹ کے سکولز ایک لاکھ 52 ہزارسے کم ہو کر ایک لاکھ 32 ہزار رہ گئے ہیں۔محض پنجاب میں سرکاری سکولز 63 ہزار سے کم ہوکر 51 ہزارسرکاری سکولز رہ گئے ہیں، جبکہ مزید 20 ہزارسرکاری سکولزپرائیویٹ لوگوں کو دئیے جار ہے ہیں۔ایک عالمی ادارے کی مستند تحقیق کےمطابق پاکستان میں 132118پبلک اور207710 پرائیویٹ سکولز ہیں،اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میںپرائیویٹ سکولزکی کل تعداد 207710 ہے،ان میں سے پنجاب میں پرائیویٹ سکولزکی کل تعداد 101810ہے،سندھ میں40850،خیبر پختوںخواہ میں پرائیویٹ سکولزکی تعداد30660،بلوچستان میں8980،اسلام آباد میں 3580،آزاد کشمیر میں10750،گلگت بلتستان میں5690 اورفاٹا میں پرائیویٹ سکولزکی تعداد1780 ہیں۔ملک بھر میں پبلک سکولز میں اساتذہ کی تعداد 751977اور پرائیویٹ سکولز میں اساتذ ہ کی تعداد 1576000ہےاور 2کروڑ سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں۔
پرائیویٹ سکولز کی ملک بھر میں کامیابی کی بنیادی وجہ انکا اعلی معیاراوراچھی تعلیم ہے،پچھلے40سالوں کے رزلٹ اور پوزیشنز پرائیویٹ سکولز کی ملک بھر میں کامیابی اور معیارکامنہ بولتا ثبوت ہیں۔اساتذہ اور دیگر سٹاف کو معاوضے کے علاوہ پیشہ ورانہ مہارتیں، ترقی ،تربیت ،مراعات اورانکے بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت میسر ہے۔مزید برآں پرائیویٹ سکولزکیطرف سے سالانہ10-20 % طلباء کووظائف اور تعلیمی اخراجات میں رعایت کی صورت میں فائدہ بھی پہنچایا جارہا ہے ۔سرکا ری سکولز میں 50 سے 70 فیصد تک عدم دستیاب سہولیات کے ساتھ پڑھنے والے طلبا ء پرحکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق فی طالبعلم فی مہینہ خرچہ 7960 Rs ہے۔دوسری طرف ملک بھر کے 207710پرائیویٹ سکولز میں دو کروڑسے زائد طلباء افورڈ ایبل فیس میں معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔85% پرائیویٹ سکولزکی فیس 2000روپے سے کم ہے،13% سکولزکی فیس2000-5000روپےکے درمیان ہے،1% سکولزکی فیس 10000-5000روپے کے درمیان ہے اور محض1% پرائیویٹ سکولزایسے ھیں جو ایلیٹ کلاس ہےاورانکی فیس 10000 روپے سے زائد ہے۔
نجی تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں کام کر رہے ہیں جنکے کرائیے فکس اور 10% سالانہ بڑھتے ہیں،50% اساتذہ اورسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی فکس خرچہ ہے،تنخواہوں میں سالانہ دس سے بیس فیصد اضافہ،یوٹلیٹی اخراجات میں اوسط اضافہ17% کے قریب اور بجلی سپلائی کو بحال رکھنے کے لئے جنریٹر کے اخراجات میں بھی گرآں اضافہ شامل ہے۔سیکیورٹی فراہم کر نا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن دسمبر 2014 کے بعدسے نجی تعلیمی اداروں کو بچوں کی سیکیورٹی یقینی بنانے اورسکول چلانے کی لاگت میں ہر سال اوسطا 15 سے 20% تک اضافہ ہو تا ہے،مزید انہیں25 مختلف قسم کے ٹیکس ادا کر نا پڑتے ہیں۔ایسی صورت میں نجی سکولوں کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہو گا کہ وہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی اورتربیت کے لیے زیادہ رقوم خر چ کر سکیں۔پرائیویٹ سکولز آہستہ آہستہ اعلی تعلیم یافتہ پروفیشنل سے محروم ہوتے جائیں گے۔پرائیویٹ سکولزکے لیے خدمات کاموجودہ معیار برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔یاد رکھیے پرائیویٹ سکولز سے15 لاکھ ٹیچرز کا روزگار بھی وابستہ ہے،پہلے ہی خاصے بڑے پیمانے پر ری سٹرکچرنگ ہو چکی ہےاوراب خدارا مزید ہزاروں ملازم پیشہ لوگوں کے روزگار پر لات مارے جانے کا سبب مت بنئے،جن میں سےایک بہت بڑی تعداد اپنے خاندانوں کے واحد کفیلوں پرمشتمل ہےکیونکہ ایسےکسی بھی اقدام کا ڈائریکٹ اثر ملازمین ہی پر پڑتا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ فروغ تعلیم کیلئے تعلیمی اداروں کو ہر قسم کے ٹیکس سےمستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فلاحی اداروں کا درجہ دے تاکہ اسکا ریلیف طلباء کو ملے اوربھر پور سرپرستی فراہم کرے۔
ماضی میں بھی جمہوری حکومتوں نے کبھی بھی تعلیم کے بارے میں کوئی سنجیدگی سے کام نہ لیا ہے بلکہ محض پوائنٹ سکورنگ کر کے سیاسی فائدے حاصل کئے،دوسری طرف فوجی حکومتوں نے ہمیشہ نہ صرف تعلیم کے فروغ کے لئے عملی اقدامات کئے ہیں بلکہ تمام تر ٹیکسس سے مستثنیٰ قرار دے کہ تعلیم دوستی کا ثبوت دیا ہے ۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں پرائیویٹ سکولز کوپانچ سال کے لیے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی اورسب سے زیادہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے دور میں ہی بنے،اسلیے آج ملک بھر میں پرائیویٹ سکولز کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہیں۔فوج کے اپنے تعلیمی ادارے آرمی پبلک سکولز مثالی تعلیمی ادارے جانے جاتے ہیں جسکی بنیادی وجہ فوجی افسران کا بچے اپنے تعلیمی اداروں میں داخل کروانا ہے، جنرل ہو یاسپاہی اسکا بچہ اس سکول میں پڑھتا ہے۔اس حوالے سے الٰہ آبادانڈیا کی ہائیکورٹ نےایک آئیڈیل فیصلہ دیاکہ جو شخص گورنمنٹ سے کوئی مراعات لے رہا یا تنخواہ وہ اپنا بچہ پبلک سکول میں پڑھائے گا،نتیجہ یہ نکلا کہ انکے سکولز کا معیار بہتر ہوا۔مگرہمارا سیاست دان اور بیورو کریٹ اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتے ہیں تو پبلک تعلیمی اداروں کا معیار کیسے بہتر ہو گا؟
دوسری طرف حکومتیوزراء،مشیر ان اور بیوروکریٹس کوہرسطح پر چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھجوائیں۔اسطرح سے سرکاری سکولوں کے معیار کو بہتر بنانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔بدقسمتی سےتعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کی وزارت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں 42ہزار سے زیادہ پرائمری سکولوں میں بچوں کیلئے پینے کا صاف پانی و دیگر سہولیات دستیاب نہیں،سب سے زیادہ بری حالت سندھ کی ہے جہاں 21771تعلیمی ادارے، پنجاب میں 6615پرائمری سکولوں، خیبر پختونخوا میں 7680 اور بلوچستان میں تقریبا 5ہزار سکولزکے بچوں کو پینے کا صاف پانی و دیگر سہولیات دستیاب نہیں ہیں،سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد ضرورت سے کہیں کم ہے۔اکثر کی تعلیمی قابلیت بھی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں گھوسٹ اساتذہ کی اطلات بھی منظر عام پر آ رہی ہیں۔ اسکی وجہ سے سرکاری سکولوں کا تعلیمی معیار روز بروز گر رہا ہے۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کو گورنمنٹ سکولز کی بہتری کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے تاکہ حکومت نجی سکولز کے خلاف جاری الزام تراشی کی آڑ میں شہریوں کو تعلیم دینے کی اپنی ذمہ داری سے بھاگ نہ سکے۔پرائیویٹ سکولز فیڈریشن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ان سرکاری سکولزکے تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے تعمیری رول ادا کر نےکے لیے تیار ہیں۔ جب تک سرکاری سکولوں کی حالت بہتر نہیں ہو تی حکومت کو چاہیے کہ وہ لوئراور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والےمستحق خاندانوں کو فیسوں کے ووچرز جاری کرے تاکہ وہ اپنے بچوں کو نجی سکولزکے ذریعے معیاری تعلیم دلوا سکیں۔
میڈیا پر بہت زور و شور سے مہم چلائی جا رہی ہے کہ سکولز مالکان بہت مزے کر رہے ہیں اوران چھٹیوں میں انکا کوئی خرچہ نہیں ہو رہا ہےلہذا انکو اپریل اور مئی کی فیسیں ادا نہ کی جائیں۔حساس موضوع ہے باہر بیٹھے لوگوں کو حقائق کا ادراک نہیں،بہت سی باتیں جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ادارے کی ٹوٹل انکم کا 50٪ تو سیدھا تنخواہوں میں اور 30٪ کرائے کی مد میں چلا جاتا ہے.پھر یوٹیلیٹی بلز، سیکورٹی اور ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے اور باقی اوورہیڈز کی مد میں بھی اچھا خاصا خرچہ ہو جاتا ہے۔اسکے بعد جو بچ جاتا ہےاس پر کارپوریٹ ٹیکس،جو بالکل دوسرے کاروباری اداروں کے برابر ہے کسی بھی قسم کی رعایت وغیرہ کے بغیر، تو جو باقی بچ جاتا ہے اس میں سے کیپیٹل ایکسپینڈیچر بھی کرنا ہوتا ہے.یہ ہیں سیدھی سادی زبان میں ایسے حقائق جنہیں مختلف ادارے اپنے اپنے طور پر کھنگال کر دیکھ چکے ہیں.انکم کا تقریباً 80-90 فیصد (before tax) تو fixed expenditure ہے جو سکول لگے نہ لگے وہ ہونا ہی ہوتا ہے.یوٹیلیٹی چارجز اوسط شرح سے آرہے ہیں۔ان لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھی ان خرچوں میں کچھ بہت زیادہ فرق نہیں پڑا۔
اب سوال ہے کہ کیاواقعی99% پرائیویٹ سکولز اونرز اوراساتذہ ایلیٹ طبقہ سے ہیں؟ملک بھر کے2لاکھ پرائیویٹ سکولز اور 15 لاکھ ٹیچرزجنہیں ہمیشہ میڈیااورکچھ ارباب اختیار نے ہمیشہ ایک مافیا بنا کر پیش کیا،یہ کون ہیں؟کبھی کسی پرنسپل کی سفید پوشی کو پس پشت ڈال کر اسکی ذندگی کے اندرونی حالات جاننے کی کوشش کریے گا تو آپکو پتہ چلے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپکے بچوں کولکھنا،پڑھنا ،کھانا،پینا،بولنااورآگے بڑھنا سکھایا۔ہمیشہ سر اٹھا کے جینا سکھایااور آج یہ سب سر جھکا کے کھڑے ہیں۔انہیں ستائش ملنی چاہیئےتھی ،تنقید کی گئی،حوصلہ ملنا چاہیئے تھا،حوصلہ شکنی کی گئی،تعاون ملنا چاہیئے تھا،رکاوٹیں ڈالی گئیں مگر پھر بھی انہوں نے آپکے بچوں کو پڑھایا،سر اٹھا کے جینا سکھایا۔ایسے لوگوں کو خراجِ تحسین دینا چاہیے۔لیکن کچھ احسان فراموش اور شرپسند، والدین اور حکام کو گمراہ کرنےلگے ہوے ہیں۔ میرا تمام پرنسپل صاحبان کو سلام ہے جو علم کی ترویج میں جہاد کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔اب موجودہ حالات میں آپکا فرض ہے کہ آپ انکا سر نہ جھکنے دیں۔انہی لوگوں نے آپکے بچوں کوسر اٹھا کےچلنااور جینا سکھایا ہےاورسکھاناہے۔ آگے بڑھیں اور آج انکا سر جھکنے سے بچائیں،جبکہ حکومت کا فرض ہے کہ ایسےنااہل اور نکمے وزرا جو اپنے فرائض ادا کرنے سے تو قاصر ہیں الٹا اپنی حرکتوں سے حکومت کی بدنامی اورمسائل کا باعث بن رہے ہیں ان سے فورا چھٹکارہ حاصل کرےاورفروغ تعلیم کے لیےپرائیویٹ سکولزکی بھرپور سرپرستی کرے۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔