• قلم کلب اردو
Monday, 4 August, 2025
Qalam Club
  • Home
  • Pakistan
    • Lahore
    • Karachi
    • Islamabad
    • Peshawar
    • Quetta
  • World
  • Exclusive
  • Transfers
  • Jobs/Interviews
  • Crime & Courts
  • Showbiz
  • Videos/Vlog
    • Business
    • Science & Technology
    • Health
    • Horoscope
  • Sports
  • Analysis
  • Home
  • Pakistan
    • Lahore
    • Karachi
    • Islamabad
    • Peshawar
    • Quetta
  • World
  • Exclusive
  • Transfers
  • Jobs/Interviews
  • Crime & Courts
  • Showbiz
  • Videos/Vlog
    • Business
    • Science & Technology
    • Health
    • Horoscope
  • Sports
  • Analysis
No Result
View All Result
Qalam Club
No Result
View All Result
Home Analysis

ڈیلی میل اخبار کو قانونی نوٹس کا کیا ہوا

ڈیوڈ روز کے تحقیقی کام سے بڑے بڑے فرعون تو کیا حکومتیں ڈرتی ہیں

obaid Bhatti by obaid Bhatti
9 August, 2019
in Analysis
0 0
0

راومنظر حیات

 

ڈیوڈروز(David Rose) غیرمعمولی سطح کا پڑھا لکھاصحافی ہے۔ویسے صرف صحافی کالفظ اس کے کام اور پہچان کے لیے حددرجہ ناکافی نظر آتا ہے۔ ساٹھ برس کایہ انسان کمال کاتحقیقی کام کرتاہے۔ایسی نایاب تحقیقات،جس سے بڑے بڑے فرعون تو کیا، حکومتیں لرزتی ہیں۔

ڈیلی میل میں کام کرنے والایہ انسان،بہت عرصے تک بی بی سی سے منسلک رہا۔ چند ہفتے پہلے محترم شہبازشریف اوران کے خاندان کے متعلق ایک تحقیقی اسٹوری لکھی جوکہ ڈیلی میل میں شائع ہوئی۔اس نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچادی۔ ڈیوڈ روزہرپاکستانی چینل پرخودآیااوراپنی اسٹوری کے ایک ایک لفظ کی وضاحت کرتارہا۔ آج بھی اپنے تحقیقی کالم پرقائم ہے۔

میرے ذہن میں ملکی صحافت کے متعلق کوئی اعلیٰ خاکہ نہیں ہے۔یہاں اکثردانشوراورجیدصحافی،دلیل اورتحقیق کی بجائے ذاتیات کے مطابق گفتگوکرتے ہیں یا کالم لکھتے ہیں۔ مقامی دانشوروں کی اس کھیپ کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں ہے۔اکثریت،آج تک کسی بھی موضوع پرکوئی مستند کتاب نہیں لکھ سکی۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگ اب مقامی صحافت کی عجیب وغریب روش سے تنگ پڑچکے ہیں۔مگریہ انحطاط صرف صحافت تک محدودنہیں ہے۔ہماراہر شعبہ، تنزلی کی داستان ہے۔معدودے چندلوگ ہیں جوحقائق کی کھوج نکال کربات کرنے اورلکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ آٹے میں نمک کے برابرہیں۔اُردواخبارات میں ان کی تعدادنہ ہونے کے برابرہے۔یہی حال اُردوالیکٹرونک میڈیا کاہے۔ہاں انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبارات میں کبھی کبھی کوئی آزاد روش ،تحقیقی اسٹوری نظرآجاتی ہے۔ پر یہاں انگریزی اخبارپڑھتاکون ہے۔

بات ڈیوڈروزکی ہورہی تھی۔9/11کے حملوں کے بعد،ڈیوڈپہلاجرنلسٹ تھاجس نے امریکی عقوبت خانے، گوانتانامو بے کی بھرپورمذمت کی تھی۔امریکی اوربرطانوی حکومتوں کوبرہنہ کرکے رکھ دیاتھاکہ یہ گوانتا نامو بے میں، مسلمانوں پرحددرجہ ظلم کرتے ہیں۔اس نے اس عقوبت خانے سے باہرآنے والے لوگوں کوتلاش کیا۔ان سے تفصیلی انٹرویوکیے اورپھراپنی شہرہ آفاق کتاب Guantanamo, America’s war on Human Rights لکھی۔ 2004ء میں چھپنے والی یہ کتاب اتنی مستحکم معلومات پرتھی کہ برطانوی اورامریکی حکومتوں کواس عقوبت خانے کے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑی۔کوئی بھی حکومت،ڈیوڈکی طرف سے لگائے گئے الزامات کاجواب نہ دے پائی۔

اس کے علاوہ ڈیوڈنے برطانوی حکومت کے ایک فیصلے پرکڑی تنقیدکی۔جس میں دہشت گردی میں گرفتار،لوگوں پر جدید طریقے سے تشددکی اجازت دی گئی تھی۔بن یامین محمد، کا کیس دنیاکے سامنے لانے والاڈیوڈہی تھا۔برطانیہ کی سینیٹ کمیٹی برائے انٹیلی جینس نے اس بات کوتسلیم کیاکہ واقعی تشددکی یہ پالیسی نہ صرف غلط ہے،بلکہ اس کے منفی نتائج نکل رہے ہیں۔بعینہ یہی بات، اسکاٹ لینڈیارڈ کے انچارج،پیٹرکلارک اورایف بی آئی کے ڈائریکٹرنے کہی کہ مسلمانوں پرجدیدطریقے سے تشدد کرنے کے کوئی نتائج نہیں نکل رہے۔

حد تو یہ ہے کہ ڈیوڈ نے ثابت کیا کہ حماس نے غزہ پرقبضہ امریکی معاونت سے کیا تھا۔یہ ایک انتہائی ٹاپ سیکرٹ منصوبہ تھا۔2017میں چھپنے والا یہ مضمون “The Gaza Bombshell”نے مغربی حکومتوں کے لیے قیامت برپاکردی۔آٹھ کتابوں کایہ مصنف،اس وقت آل شریف کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔ وہ ان کی مالیاتی بے ضابطگیوں پرتحقیقی مقالے لکھ کر پاکستان اوربرطانیہ کی حکومتوں میں تہلکہ مچا چکا ہے۔ غیرجذباتیت سے دیکھیے توکسی نے بھی، اس کے حقائق کی تردیدنہیں کی۔ہاں تنقیدضرورکی ہے۔ جوبہر حال ہر سیاسی جماعت اورانسان کابنیادی حق ہے۔

ڈیلی میل سواسوسال پرانا اخبارہے۔یہ1896میں شروع کیاگیااورحالیہ دور میں ’’سن‘‘اور’’میٹرو‘‘کے بعد برطانیہ کاتیسرابڑا اخبارہے۔اس کی روزانہ کی اشاعت دس لاکھ سے اوپرہے۔اورہاں، ایک انتہائی اہم بات، تحقیق کے مطابق اسکوپڑھنے والوں کی تعدادچالیس لاکھ کے قریب ہے۔اسے 52اور55کی عمرکے درمیان والے سب سے زیادہ پڑھتے ہیں۔یعنی یہ سنجیدہ عمرکے لوگوں کا اخبار ہے۔ اس کی ویب سائٹ پرہر مہینہ دس کروڑسے زیادہ افراد مطالعے کے لیے آتے ہیں۔عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ ڈیوڈروزکی طرح،ڈیلی اخباربھی مستند حیثیت کامالک ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ برطانوی اخبار میں کوئی بھی تحقیقی اسٹوری چھاپنے اورچھپوانے کاکام انتہائی پیچیدہ اور غیرجانبدارہے۔جب بھی کوئی صحافی ایسی اسٹوری لکھتاہے جوکہ کسی شخص یاحکومت کے لیے مسائل پیداکر سکتی ہے۔ توایڈیٹر،صحافت کی اعلیٰ روایات کومدِنظررکھتے ہوئے، اسٹوری کسی دوسرے ممتازصحافی کے حوالے کرتا ہے۔ دوسرا صحافی،ایک امپائرکی حیثیت رکھتا ہے۔ مکمل طورپر آزاد ذرائع سے اس کہانی پرتحقیق کرتاہے۔ اگرحقائق جزوی طور پربھی غلط نکلے،تو ایڈیٹرکولکھ کردیتاہے کہ یہ تحقیق درست نہیں ہے اور اس کو نہیں چھاپنا چاہیے۔

ہاں،اگرکہانی سوفیصد درست نکلے توپھرایڈیٹرکو لکھ کردیتاہے کہ اس میں کوئی سقم نظرنہیں آیا۔اس کے بعد،ایڈیٹر،اس کہانی کواخبارکے لیگل شعبہ میں بھجواتاہے۔جہاں وکلاء کی ٹیم اس کہانی کوہرزاویہ سے پرکھتی ہے اوراس پراپنی رائے دیتی ہے۔اگروکیل یہ کہہ دے،کہ قانونی سقم کی وجہ سے اسٹوری نہیں چھپنی چاہیے تواسٹوری ہرگزہرگزنہیں چھپ سکتی۔اس احتیاط کی صرف ایک وجہ ہے کہ برطانیہ میں مکمل طورپرقانون کی عملداری ہے۔

اگرکوئی اخبارغلطی سے کسی بھی شخص یا ادارے کے متعلق غلط خبرشائع کردے،تواسے عدالت میں پیش ہونا پڑتاہے۔اس پراس قدرجرمانہ کیا جائیگا کہ اخبار تقریباً دیوالیہ ہوجائیگا۔ ہراسٹوری کی طرح،محترم شہبازشریف کے خاندان کے متعلق لکھنے سے پہلے،تمام جزئیات معمول کے مطابق طے کی گئی تھیں۔ ڈیوڈروز نے توذاتی طورپرتمام لوگوں کوای میلز پربھی اپنا بیانیہ دینے کی دعوت دی تھی۔ مگر کسی بھی شخص،جواس اسٹوری میں ملوث تھا، جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔

ڈیلی میل کی اس اسٹوری کے بعدمحترم شہباز شریف برطانیہ تشریف لے گئے تھے۔ان کی وکلاء کی ایک ٹیم ان سے پہلے لندن میں قانونی چارہ جوئی کے لیے موجودتھی۔لگتاتھاکہ ڈیلی میل کی شامت آچکی ہے۔ ڈیوڈ روزفوری طورپران کے پیرپکڑ لیگا۔اخبارکا ایڈیٹر،ان لوگوں کے گھرجا کردروازے پرکھڑا ہوکرہاتھ جوڑدیگا۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پہلی تلخ بات تویہ،کہ محترم شہبازشریف کی ملکی ٹیم میں،برطانوی اخبار کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کاکوئی ماہرتھا ہی نہیں۔چنانچہ اس کام کے لیے برطانیہ کی مشہوراورمہنگی ترین قانونی فرم، کارٹررکCarter Ruckکاسہارالیاگیا۔یہ کمپنی برطانیہ میں اخبارات میں چھپنے والی خبروں پرقانونی چارہ جوئی کرنے کی ماہرہے۔اس کی صلاحیت کالوہا،پورابرطانیہ مانتا ہے۔ بلکہ اس کے کلائنٹ دنیا کے طاقتوراورمشہورترین لوگ ہیں۔

رچرڈ برگن، مائیکل مارٹن، اداکارہ شلپاسیٹھی،روئے ریم اور متعدد امیر لوگ اس کمپنی کے خوشہ چیں ہیں۔قطرکے شاہی خاندان سے لے کرکئی شاہی خاندان،اس کمپنی سے استفادہ کرچکے ہیں۔دیکھاجائے تو کارٹررک ایک انتہائی زیرک اور باصلاحیت کمپنی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ برطانیہ کی بہترین کمپنی نے بھی ڈیلی میل اورڈیوڈروزکے خلاف کسی بھی عدالت میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی۔کسی بھی برطانوی عدالت کادروازہ نہیں کھٹکھٹایا کہ محترم شہبازشریف کے خلاف بالکل غلط اسٹوری شائع کی گئی ہے۔

آج کی تاریخ تک کسی برطانوی عدالت میں، ڈیلی میل اورڈیوڈروزکے خلاف کوئی کارروائی کی درخواست تک دائر نہیں ہوئی۔ ہاں، اخباراورصحافی کوایک قانونی نوٹس دیاگیاہے کہ آپ نے یہ سب کچھ کیونکر اورکیسے کیا۔قانونی نوٹس کے جواب کے لیے، اخبار نے چودہ دن کاوقت مانگا ہے۔

نوٹس کے بعدبھی ڈیوڈروزنے کہاہے کہ وہ اپنی تحقیقاتی اسٹوری کے ایک ایک لفظ پرقائم ہے۔برطانیہ میں ان تمام معاملات کوپاکستان کی طرح برتا نہیں جاتا۔جہاں سول کورٹ کے بلانے پربھی ہرجانے کے کیس میں ملوث فریقین عدالت میں نہیں جاتے۔سول کورٹ مکمل خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔کیونکہ اسے اندازہ ہوتاہے کہ فریقین اتنے تگڑے ہیں کہ ان کے معاملات کونہ چھیڑنا،زیادہ بہتررویہ ہے۔مگر برطانیہ میں یہ دستورنہیں ہے۔

اخبارات کے مالکان،صحافی اورعدالتیں اتنی مضبوط روایتوں کے امین ہیں کہ کم ازکم ہمارے جیسے ملکوں میں اس سچ کا تصورتک نہیں کیا جا سکتا۔ محترم شہبازشریف نے کارٹررک کمپنی کواپناوکیل بناکرایک بہترین ترکیب استعمال کی ہے مگر اس کمپنی اورشہبازصاحب نے بھی عدالت میں جانے سے گریزکیاہے۔

افسوس تواس اَمرکاہے کہ ہمارے ملک میں کوئی لیڈر، کوئی سیاسی طورپربڑاآدمی،سچ نہیں بولتا۔یہ لوگ ہرسطح اور ہر مقام پرکمال مہارت سے غلط دلائل پیش کرتے ہیں،کہ حیرت ہوتی ہے ۔ہماری سیاسی جماعتوں میں شائد سچ بولنے پرمکمل ممانعت ہے۔ قیامت تویہ بھی ہے کہ قوم کی اکثریت اب سیاستدانوں کوسنجیدگی سے نہیں لیتی۔ مگر ہر جماعت کے جذباتی سیاسی کارکن موجودہیں۔یہ اپنے اپنے قائدین کوفرشتہ گردانتے ہیں۔ان کے خلاف کوئی بات سننے کی تاب نہیں لاتے۔انھوں نے سیاسی بت تراش رکھے ہیں اور شائد یہ ان بتوں کوہی سب کچھ مان چکے ہیں۔

ہرسیاسی پارٹی میں ایسے لوگ موجودہیں جودلیل سے کی گئی غیرجانبدارتنقید کوبھی شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔انہیں اوران کے سیاسی اکابرین کوہرطرف سازش ہی سازش نظرآتی ہے۔سازش توصاحب ہوئی ہے اوروہ ہے کہ عوام کو معاشی، سماجی اوراقتصادی غلام بنانے کی۔اس بھیانک کھیل میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ان اکابرین کے لیے لوگ کیڑے مکوڑے ہیں۔اورعام آدمی،اس کواپنامقدرتسلیم کر چکاہے۔دیکھیے، برطانیہ میں ڈیوڈروز،ڈیلی میل اور کارٹررک اورہمارے اکابرین تھیلے میں سے کون سی بلی نکال کر ہمیں حیران کرینگے۔یاشائد تھیلے میں سے کچھ بھی نہ نکل پائے، کیونکہ تھیلا توپھٹاہواہے

 

نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا کالمسٹ یا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Tags: AID Fund corruptionDaily mail UKDavid RoseShahbaz Sharif
Previous Post

مودی ہٹلر کے راستے پر چل نکلا ہے، توجہ ہٹانے کے لیے کچھ بھی کرسکتاہے، عمران خان

Next Post

لیگی ایم این اے جاوید لطیف کی فلور مل بھی گرادی گئی،8کنال اراضی واگزار

obaid Bhatti

obaid Bhatti

Next Post

لیگی ایم این اے جاوید لطیف کی فلور مل بھی گرادی گئی،8کنال اراضی واگزار

Latest News

New Twist in Sushant Singh Case: Court Issues Notice to Rhea Chakraborty

30 July, 2025

U.S. Asks Citizens to Help Pay Off $36 Trillion Debt as Economic Crisis Looms

30 July, 2025

Canada Moves Closer to Recognizing Palestinian State Amid Global Pressure

30 July, 2025
  • Trending
  • Comments
  • Latest

سی ٹی ڈی پنجاب میں نوکری حاصل کریں،آخری تاریخ 18 اپریل

17 April, 2020

پنجاب پولیس میں 318 انسپکٹر لیگل کی سیٹوں کا اعلان کردیا گیا

19 April, 2020

حسا س ادارے کی کاروائی، اسلام آباد میں متنازعہ بینرزلگانے والے ملزمان گرفتار

7 August, 2019

پنجاب پولیس کے اہلکاروں اور افسروں کا ڈیلی اور فکس الائونس منظور

16 July, 2019

New Twist in Sushant Singh Case: Court Issues Notice to Rhea Chakraborty

0

12-Year-Old child Murdered by Molvi

0

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ موخر کردیا، فردوس عاشق

0

مزدوروں کا عالمی دن

0

New Twist in Sushant Singh Case: Court Issues Notice to Rhea Chakraborty

30 July, 2025

U.S. Asks Citizens to Help Pay Off $36 Trillion Debt as Economic Crisis Looms

30 July, 2025

Canada Moves Closer to Recognizing Palestinian State Amid Global Pressure

30 July, 2025

Modi Agitated, Railways Revived: PM Shehbaz Sharif’s Bold Address

29 July, 2025
Qalam Club

In modern times, social media has established itself as a reliable and trustworthy platform. But unfortunately some people are misusing it by posting false, baseless or stolen news for personal purposes. The "Qalam club" is being started as a jihad against such elements. It is the only platform for talented and experienced journalists to publish authentic news, unbiased comments and meaningful articles in good faith. Our doors are open to all those impartial friends who want to improve the society by making the facts public.
Note: The "Qalam Club" does not necessarily agree with the personal views of the authors

  • About us
  • Careers
  • Code of Ethic
  • Privacy Policy
  • Contact us

QALAM CLUB © 2019 - Reproduction of the website's content without express written permission from "Qalam Club" is strictly prohibited

QalamClub © 2020 - All Rights Reserved.

No Result
View All Result
  • Home
  • Pakistan
    • Lahore
    • Karachi
    • Islamabad
    • Peshawar
    • Quetta
  • World
  • Exclusive
  • Transfers
  • Jobs/Interviews
  • Crime & Courts
  • Showbiz
  • Videos/Vlog
    • Business
    • Science & Technology
    • Health
    • Horoscope
  • Sports
  • Analysis

QalamClub © 2020 - All Rights Reserved.

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In