تحریر: ڈاکٹر شہزاد محمد رانا
آج نیشنل بنک آف پاکستان ۔فرید گیٹ بہاول پور کے خدمت سے سرشار مستعد عملہ نے صبح پونے دس بجے جو ٹوکن جاری فرمائے وہ ٹوکن ہولڈرز شام پونے پانچ بجے تک اپنی باری کا بڑی بے بسی سے انتظار کرتے رہے ۔استفسار پہ جلا بھنا ہواجواب ملا کہ معمر شہریوں اور خواتین کے خصوصی کاونٹرز مریخ پہ ہونگے ہماری برانچ پہ تو نہیں ہوتے ۔ہم نے گوگل بھائی سے سٹیٹ بنک آف پاکستان بہاول پور کے شکایت سیل کا فون نمبر دریافت فرما کر فون بھی کر ڈالا ۔ہیلو ہائے کے بعد عرض کیا تو فون پک کرنے والے نے بتایا کہ متعلقہ آفیسر باتھ روم تک گئے ہوئے ہیں ۔ یقیننا ۔۔۔یہ انکا انسانی ، حیوانی اور نیچرل رائیٹ تھا ہم نے 15 منٹس کے بعد دوبارہ کال ملائی تو جواب ملا کہ سٹیٹ بنک ہے اور اسکے آفیسر کی رفاہ حاجت کادورانیہ بھی انکے اسٹیٹس کے مطابق عام شہریوں کی نسبت طویل ہی ہوگا ۔ ہم نے ایک بار پھر گھگھیانے کی جسارت فرمائی جو” کال بوائے “کو ذرا بھی نا بھائی ۔پتہ ہے انہوں نے کیا فرمایا کہ ضروری تو نہیں کہ کمپلینٹ سیل میں آفیسر اس وقت موجود ہو کہ جب آپ کمپلینٹ کریں ۔۔ہم نے اس اعلی قسم کے باکردار ۔جملہ کو ایک” قومی لطیفہ ” گردانتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایک اور کمپلینٹ بنتی ہے ۔۔۔۔۔ مگر ،اگر۔ پھر مگر ۔نہیں۔۔ ابھی۔۔۔ اگر ۔۔ہی ٹھیک ہے تاہم ۔۔مگر نے آپکا کیا بگاڑا ہے ۔چلیں مگر لگا کے دیکھتے ہیں ۔مگر یہ شکایت کہاں کی جائے ۔۔۔اگر ہمیں معلوم بھی ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ۔مگر ۔۔۔۔۔۔آپ ۔۔۔پنچابی کا ۔مگر ہی ساتھ رکھئے ۔۔۔چوں کہ چنانچہ آپ انشا ءاللہ ۔مگر مگر ہی رہیں گے اپنی شکایات کی تکمیل کیلئے عمر خضر بھی کم پڑ جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر کیا کیا جائے ۔۔اگر کوئی بتا بھی دے تو ۔۔۔۔۔۔( جاری ۔۔۔۔۔۔فقط آنسو )
وٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کردیجیے