
کنکریاں – کاشف مرزا
اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ گلوبل ٹرینڈزکےمطابق 2019-18میں 23 لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے،یہ تعداد 20 برس پہلے کے مقابلے میں دگنی ہے۔37 ہزارافراد روزانہ اپنے گھروںکو چھوڑنے پرمجبور ہیں،جسکی وجہ خانہ جنگی، تنازعات، جبری بے دخلی اور روزگار کا حصول بتائی گئی ہے۔جبکہ 2018 اور 2019کے درمیان آٹھ لاکھ چوراسی ہزار تعلیم یافتہ پاکستانی بیٹے بیٹیاں وطن سے سمندر پار اجنبی دیسوں کے لیے سدھار گئے, آخر کیا اسباب تھےانکےخواب کس نے منتشر کیے کہ وہ اپنے ماں باپ،اپنے گھر، گلی اور بزرگوں کی قبریں چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔انہوں نے جو تعلیم حاصل کی،جو تربیت پائی،وہ اس وطن کے کام کیوں نہیں آئی۔گزشتہ برس کی نسبت بیالیس فی صد زاید پاکستانیوں نے ملک چھوڑا،وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق افرادی قوت کی ایکسپورٹ میں 42 فی صداضافہ ہوا ہے۔افرادی قوت پاکستانی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے،اسکے ذریعے ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کو نا صرف روزگار حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے قیمتی زرمبادلہ سے ملک کی معیشت کو سہارا بھی دیتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سےان تارکین میں دس ہزار انجینئرز ہیں،9500اکائونٹنٹ، 25ہزار الیکٹریشن،3000 اساتذہ،500 نرسیں، 2500فارمسٹ،13000زرعی ٹیکنیشین، 17000اعلیٰ تربیت یافتہ،29000اعلیٰ تعلیم یافتہ 340000محنت کش تھے۔2018میں 3لاکھ گئےاور 2019 میں یہ تعداد 5لاکھ ہوگئی،2020میں کیا ہوگااسکااندازہ کر لیں۔
انسانوں کے اسمگلرز اپنا کام کرتےاور لوگوں کو موت اور مشکلات کے منہ میں دھکیلتے رہے، لڑکیوں کوغلط کام کے لیے شادی کے نام پر چین لے جانے کا اسکینڈل سامنے آیا،ترسیلاتِ زر میں کچھ اضافہ ہوا۔2017ءمیں ماہ اکتوبر میں 43,752 افراد کو بیرون ممالک ملازمتوں کے سلسلے میں بھجوایا گیاتھا،سمندر پار پاکستانیوں کی یہ تعدادملکی ترقی اور خوش حالی کے لیےہر دم کوشاں ہے، تاہم افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب یہ انسانی وسائل دیار غیر میں ضائع ہوجاتے ہیں تو ملک کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں، غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے والے یاغیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والے یہ ہموطن،اپنے خاندان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔یہ سارے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔اب تک ایک کروڑ کے قریب تعلیم یافتہ، ہُنر مند ،محنت کش اپنی صلاحیتیں،توانائیاں غیر ممالک کی ترقی کی نذر کر رہے ہیں،یہ صورتحال تشویشناک ہے۔
21ویں صدی میں ترقی اور خوشحالی کی بنیاد نالج اکنامی پر قائم ہے۔اسکاثبوت جاپان،کوریا،تائیوان،سنگاپوروغیرہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔چین بھی اب اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ان میں سے زیادہ تر ممالک نے اپنے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں پر بے حد سرمایہ کاری کی ہے،اور نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کو اعلیٰ تعلیم، بالخصوص سائنس، ٹیکنالوجی،انجینیئرنگ اور میتھس کی تعلیم کےلیے دوسرے ممالک بھیجا ہے۔ان نوجوان سائنسدانوں نے ٹاپ یونیورسٹیوں میں پڑھا، جدید ترین لیبارٹریوں میں کام کیا،اپنے شعبوں کے ماہرین کےساتھ ملکر تحقیق کی،اور یہ تحقیقات مایہ ناز تحقیقی جریدوں میں شائع کروائیں۔کوریا نے 1980ء کی دہائی میں امریکا اور یورپ تک مشنز بھیجے تاکہ وہاں موجود کورین سائنسدانوں کو خطیر رقومات کے پیکجز دے کر کوریائی تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی جانب راغب کیا جاسکے۔حال ہی میں چین نے تھاؤزنڈ ٹیلنٹس پروگرام شروع کیا ہے جسکا ہدف وہ چینی شہری ہیں جو امریکا اور دنیا کی دیگر اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ ملک واپس آنے پر انہیں پُرکشش بونس، ریسرچ فنڈز کی گارنٹی، کافی تعداد میں تکنیکی اسٹاف اور اپنے شعبہءِ مہارت میں نوجوان طلباء کو تربیت دینے کا موقع دیا جاتا ہے۔انہیں رہائش، خوراک اور منتقلی پر سبسڈیز دی جاتی ہیں۔انکےشریکِ حیات کو یقینی ملازمت فراہم کی جاتی ہےاور انہیں انکے آبائی علاقوں میں باقاعدگی سے بھیجا جاتا ہے۔چنانچہ چینی کمپنیاں علی بابا اور ٹین سینٹ سائنسی ٹیلنٹ کے سب سے بڑے مراکز بن چکی ہیں۔
ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر چین کی سرمایہ کاری 1991ء میں 9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 409 ارب ڈالر ہوگئی ہے جو کہ امریکا کے 485 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ چین فی الوقت اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 2.4 فیصد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کر رہا ہے۔نیشنل سائنس بورڈ کے مطابق چین اس سال کے اختتام تک امریکا کو پیچھے چھوڑ دینے کے راستے پر گامزن ہے۔2016ء میں ایسا پہلی بار ہوا کہ سال بھر میں چین نے امریکا سے زیادہ سائنسی اشاعتیں کیں۔ چین نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سائنسی خدمات انجام دینے والے سائنسدانوں کو بھی اپنی جانب راغب کیا ہے۔یہ ماہرین مقامی سائنسدانوں کے ساتھ علم پیدا کرنےاوربانٹنےمیں تعاون کرتے ہیںاسکےمقابلےمیں پاکستان میں صورتحال کیا ہے؟ ہمارے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیلنٹ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔90ء-1989ء میں تقریباً 7 ہزار 10 پاکستانی طلباء امریکی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم تھے جبکہ انکے مقابلے میں ہندوستانی طلباء کی تعداد 26 ہزار 240 تھی، یعنی 1:4 کا تناسب تھا۔2014ء15ء میں یہ فرق حیران کن حد تک بڑھ گیا ہے اور 1 لاکھ 32 ہزار 888 ہندوستانی طلباء کےمقابلے میں اب صرف 5 ہزار 354 پاکستانی طلباء امریکا میں موجود ہیں،یعنی 1:25 کا تناسب ہے۔زیادہ تر ہندوستانی طلباء صفِ اول کی یونیورسٹیوں میں STEM کی اعلیٰ تعلیم حاصلکر رہے ہیں۔ہندوستان سے تعلق رکھنے والےاساتذہ اور ریسرچ سائنسدانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ انکےمقابلے میں پاکستانی صرف انگلیوں پر گننے جتنے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں بیرون ممالک سے پاکستانیوں کو سب سے زیادہ ڈی پورٹ کیا گیااورگزشتہ 3برسوں کے دوران 3لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا ، جن میں سے اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائو الدین اور پاکستان کے دیگر شہروں سے تھا۔بیرون ممالک مقیم96لاکھ پاکستانیوں میں سے 10 ہزار 289 پاکستانی،بیرون ممالک جیلوں میں تاحال قید ہیں،بھارت کی جیلوں میں 572 پاکستانی مختلف کیسز میں قید ہیں، امارات میں 2ہزار 25، برطانیہ میں300 پاکستانی جیلوں میں،آسٹریلیا میں250، چین 268اور یونان میں 617 پاکستانی قیدہیں،امریکامیں 109 پاکستانی دہشت گردی اور فراڈ کے کیسز میں قید ہیں،ایران میں غیرقانونی داخلےاورمنشیات کے کیسز میں 134 پاکستانی جیلوں میں ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق تقریباً11 ہزارپاکستانی جن میں 3 ہزار 309 سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں۔تقریباً 11 ہزار پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں تکلیف کا سامنا کررہے ہیں،لیکن سرکاری محکموں کے درمیان تعاون کے فقدان کی وجہ سے انکی تکلیف کو کم نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں مزدور کی منتقلی کےلیے کم زور ضابطہ کار کی وجہ سےہزاروں پاکستانی خاص طور پر کم اجرت پر کام کرنے والے مزدورانسانی اسمگلنگ،جبری مزدوری،بیرون ملک حراست میں ناروا سلوک کا شکار ہیں اور یہاں تک کے انکی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
گذشتہ برس روزگار کی غرض سےریکارڈ تعداد میں ہموطن سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات گئے۔بیرون ملک موجود پاکستانی نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ بھیجتے ہیں بلکہ یہ پاکستان میں ملازمتوں پر موجود دباؤ کو بھی کم کرتے ہیں،بدقسمتی سے غیرقانونی طور پر دیگر ممالک میں جانے والے تارکین وطن کی تعداد قابل تشویش ہے، خاص طور پرسعودی عرب میں ایسے پاکستانیوں کی گنتی لاکھوں میں ہے،جو غیر قانونی طور پرمملکت میں رُوپوش ہیں۔گزشتہ 24 ماہ سے ’غیر قانونی تارکین وطن سے پاک مملکت‘ کے نام سے جاری اس مہم میں اب تک10 لاکھ 14 ہزار 220 افراد کو گرفتار کیے جانےکے بعد ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔50 ہزار پاکستانی تارکین وطن ترکی سے وطن واپسی کے منتظر ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ روزگار کی تلاش میں غیرقانونی ہجرت کرنے والےانسانی المیے کا باعث بنتے ہیں۔اس عمل میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹس اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ایسے انسانی المیے تارکین وطن کے ساتھ آئے روز جنم لیتے ہیں۔رواں برس پاکستان میں شادی کے نام پر غریب خاندان کی لڑکیوں کو سہانے خواب دکھا کر چین لے جانے اورانہیں وہاں جسم فروشی پر مجبور کرنےکے متعدد واقعات بھی سامنے آئے۔بہتر مستقبل کی تلاش میں جہاں مرد اور کم عمر بچے جبری مشقت کا شکار ہوتے ہیں وہیں لڑکیوں اور عورتوں کو بیرون ملک اسمگل کرکے جسم فروشی یا کم اجرت پر روزگارپر مجبور کیا جاتا ہے۔اس قسم کے انسانی المیوں کی اصل وجہ تیسری دنیا کے ممالک کی غربت اور ناداری ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے مالی سال 2019-20 کے لیےگزشتہ پانچ ماہ میں 9 ارب 29 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی ترسیلات بھیجیں گئیں،جبکہ رواں مالی سال ترسیلات زرکاحجم بائیس ارب ڈالرسےزائد ہو جائے گا۔مجموعی طور پر اس عرصے میں بہتری کے باوجود جی سی سی ممالک سے آنے والی آمدنی میں منفی رجحان دیکھنے میں آیا اور مالی سال 2018-19کے 7فی صد کے مقابلے میں یہ 1.8 فی صد رہی اور کُل 2 ارب 11 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر آئیں۔حکومت سمندر پار پاکستانیوں کے لیے مختلف پیکجز تو متعارف کرواتی ہے لیکن ابھی تک کوئی ایسی بارآور کوشش سامنے نہ آسکی ہے۔پاکستانی روپے کی گرتی قدر مزید لوگوں کواپنا سرمایہ ملک سے باہر لے جانے پر مجبور کرسکتی ہے ۔گزشتہ محض ایک سال کےاندر پاکستانی روپے نے جس تیزی کےساتھ اپنی قدر کھوئی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ آیا پاکستان میں سرمایہ کاری محفوظ اور منافع بخش ہوگی بھی یا نہیں۔گزشتہ کم ازکم دس برسوں میں جس طرح پاکستان سے سرمایہ باہر گیا ہے، اُسکا کوئی باضابطہ ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن بظاہر پاکستانیوں نے ملک میں اپنی جائیدادیں،زمین اور کارخانے فروخت کرکے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا ہے۔اِسکی سادہ سی وجہ سلامتی کی بگڑتی صورتحال،سیاسی عدم استحکام، سماجی بے چینی اور ملک کے مستقبل سے مایوسی ہے۔اِن عوامل کو واضح طور پر دُور کیے بغیر اُن لوگوں اور اُنکے سرمائے کو پاکستان واپس لانا قدرے مشکل ہوگا جومستقبل سے مایوس ہوکر آخری اقدام کے طور پر ملک سے باہر منتقل ہوچکے ہیں یا اپنا سرمایہ ملک سے باہر گھروں کی خریداری اور نئے کاروبار میں لگا چکے ہیں۔
پاکستان میں ترکِ وطن سے ہماراسماجی شیرازہ بکھر رہا ہے۔ہمیں اب دنیاکے بارے میں اپنا نکتہ نظر تبدیل کرکےمستقبل کی جانب دیکھنا ہوگااگر ہم دنیا کی 200 سے زائد اقوام سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں توہمیں اپنے ہنرمند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو سہولیات دینی چائیے،اورترقی وخوشحالی کی بنیاد نالج اکنامی پر قائم کی جائے،تاکہ عوام کی خدمت کرسکیں۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔