تحریر: سمیع احمد کلیا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم گورنمنٹ دیال سنگھ کالج میں لیکچرار تھے اسی وقت سے مجھے لاہور کی ہیرا منڈی‘ سے دلچسپی ہو گئی تھی۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں خاص کر کالج کے مین لان کے سامنے پرانی طرز کا بنا ہوا تین منزلہ گھر تھا۔ مجے پرانے گھر اور ان کی فوٹوگرافی بہت پسند ہیں۔ ایک دن کالج کے ایک پروفیسر صاھب نے کہاآپ کو پرانے گھر بہت پسند ہیں تو آپ ہیرا منڈی جائیں وہاں آپ کو بہت کچھ نیا دیکھنے اور سیکھنے کو ملے گا اس طرح میری ہیرا منڈی سے شناسائی ہوئی۔ مگر بعد قسمتی سے پاکستانی معاشرے میں وقتاً فاوقتاً ہونے والی اسلامائزیشن کے نتیجے میں یہ علاقہ اپنا اصل رنگ و روپ کھو چکا ہے۔
ہیرا منڈی کے لوگ دن کے وقت بات نہیں کرتے یا بہت کم بولتے ہیں مقصد رات کے لئے انرجی بچا کے رکھنا ہے اس میں دلال اور کنجریاں بلا تخصیص شامل ہیں مگر جب میں نے ان لوگوں سے بات چیت کرنے کے لئے ان کو یہ بتاتا کے میں قریبی دیال سنگھ کالج میں استاد ہوں تو بہت عزت دیتے۔ آپ یقین نہیں کریں گے یہ لوگ ویسے نہیں ہیں جیسا ہم سوچتے یا سمجتھے ہیں۔ خاص کراس وقت میری حیرانگی کی حد نہ رہی جب وہ لوگ اپنی رقاصاؤں کو مجھ سے ملنےکے لیۓ بلاتے اور یہ بتاتے کہ میں استاد ہوں تو ان کا احترام دیکھنے کے لائق ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: بازار حسن کی شہزادی سے ملاقات (پارٹ 1) تحریر: سمیع احمد کلیا
میں نے مختلف لوگوں سے بات چیت کی ہیرا منڈی کے ایک موسیقاربلو بٹ کے مطابق یہ جگہ اب ویسی نہیں رہی جیسی کبھی ہوا کرتی تھی۔ بٹ صاھب کا کہنا تھا کبھی یہ علاقہ فنکاروں کا مرکز ہوتا تھا لیکن اب تو محض قحبہ خانہ بن کے رہ گیا ہے۔ بازار کی اس گہما گہمی میں ہیرا منڈی کی پرانی رقاصہ شہلا ایک گلی کے نکڑ میں ایک بینچ پر بیٹھی اپنے ماضی کی شان و شوکت کو یاد کر رہی ہے۔ شہلا اب پچاس کے پیڑے میں ہے اور بقول اُس کے کبھی وہ یہاں کی معروف رقاصہ اور طوائف رہی ہے۔
دنیا کے ہر کاروبار کی طرح یہاں بھی سخت مقابلہ اور حسد کی جلن محسوس کی جاتی ہے۔ کنجر بزنس میں نئی داخل ہونے والیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سستی عورتیں ہیں ان کا کوئی آرٹسٹک معیار نہیں ہوتا۔ ان عورتوں میں سے بعض مضافات سے لاہور میں منتقل ہوتی ہیں، جنہیں بوجہ غربت ان کے خاندانوں نے چکلے والوں کے ہاتھ فروخت کیا ہوتا ہے۔ ایک بزرگ اور سمجدار دلال (لڑکیوں کا کاروبار کرنے والا آدمی) کا کہنا تھا کہ بعضوں کی شادی ایسے مردوں سے ہوئی ہوتی ہے جو انہیں یہاں لا بٹھانے کے لیے بھاری قیمت ادا کر کے بیاہتے ہیں۔ پھر ان کے دلال بن جاتے ہیں۔ بعض عورتیں اپنے گھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے نکل آتی ہیں اور بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ کر بالآخر یہاں لا کر بسا دی جاتی ہیں۔ حکم نہ مانیں تو پٹائی ہوتی ہے، سیدھی ہو کر چلیں تو کمائی چکلے کے نائکہ یہ منتظم کے پاس جمع ہوتی رہتی ہے، انہیں روٹی، کپڑے اور مکان کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ مجھے پتہ ہے کہ ان میں بعض لڑکیوں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی ہوتی ہے۔
مجھے ایسی کسی لڑکی سے ملنے کا موقع نہیں ملا۔ سوائے گاہک کے، کوئی ان سے ملاقات نہیں کر سکتا۔ شاید ان کا وجود ہی نہیں، بلکہ یہ ایک پرزے کی حیثیت رکھتی ہیں جنہیں صرف دلال کے حکم کے تحت اور اس کے مطابق چکلے کو متحرک رکھنا ہے۔ کنجر عورتوں کے برعکس، ہیرا منڈی میں نئے وارد ہونے والوں کا کوئی خاندانی نیٹ ورک نہیں جو ان کی مدد کر سکتا ہو یا ان کا نفسیاتی سہارا بن سکتا ہو۔
بعد قسمتی سے برصغیر کا روایتی مردانہ کلچر عورتوں کا استحصال کرتا رہا ہے لیکن قدیم نظامِ عصمت فروشی جو انہیں کسی قدر تحفظ دیتا رہا ہے، اب اس نئی لاہوری جنسی تجارت کی مکروہ ساخت میں سے غائب ہے۔ بوڑھی عورتوں کا کنجر معاشرے میں ایک مقام ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کام کو بطور خاندانی فرم بڑی مہارت سے چلا رہی ہیں اور چلتی پھرتی یونیورسٹی ہوتی ہیں۔ ایک بوڑھی نائکہ جو ٥٠ سال سے اسی کام سے وابسطہ ہے کہتی ہے کہ اب منیجرز کی ایک نئی نسل، دلالوں، ایجنٹوں اور بردہ فروشوں کی شکل میں سامنے آ چکی ہے جس نے تسلسل کے ساتھ قائم صنعت (established industry) کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ ان لوگوں میں سے بعض ہیرا منڈی کے ہیں اور بعض بیرونی ہیں، ان کی دولت کا کوئی شمار ہی نہیں اور نہ ہی کوئی ان کی طاقت کا اندازہ کر سکتا ہے۔ ان لوگوں نے بوڑھی کنجری عورتوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ جدید دور کے منتظمین قحبہ گری (modern executives) صرف پندرہ سے انیس برس اور پھر بیس سے تیس برس کی دو کیٹگریز میں چلا رہے ہیں۔ تیس برس کی ہونے پر عورت کو فوراً باہر پھینک کر بے روزگار کر دیا جاتا ہے۔ یہ بتاتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(میرے لئے تمام خواتین قابل عزت ہیں تحریر میں مجبورن خواتین کے لئے وہ الفاظ استعمال کرنے پڑے جو اس وقت اس علاقے میں رائج ہیں )
مصنف سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@e.qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔