کنکریاں۔کاشف مرزا
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نےاعلان کیا کہ اگلے تعلیمی سال مارچ 2020سے پنجاب کے پرائمری سکولوں میں ذریعہ تعلیم اردو کر دیا جائے گا۔وزیراعلی پنجاب نے آئین اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں اردو ذریعہ تعلیم کاحکم یہ کہہ کر دیا کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے طلباء ترجموں میں الجھےرہتے ہیں۔اس لئے علم کے ابلاغ کے لئے پرائمری سطح پر تعلیم اردو میں دی جائے گی اورانگریزی لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جائے گا۔ وزیراعلی پنجاب کے اس فیصلے سے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئ،ابھی اس فیصلے کو خوش امدید ہی کیاجارہاتھا کہ یہ اعلان کیا گیاکہ اردو میڈیم کا اطلاق صرف سرکاری اداروں پر ہوگا۔سوال یہ ہے کہ نجی انگریزی میڈیم ادارے اس حکم سے مستثنی کیوں ہونگے؟ نفاذ اردو فیصلہ دستور کا تقاضا اور سپریم کورٹ کا حکم ہے۔ کیا آئین پاکستان کا نفاذ ریاست کے مخصوص لوگوں پر ہوگا؟ کیا آئین پاکستان تمام شہریوں کو تعلیم اور صحت کے مساوی حقوق نہیں دیتا؟
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم اردو زبان کے ساتھ غیروں والا اور امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔ دنیا کی ہر قوم اور حکومت اپنی قومی زبان کی ترویج، فروغ اور ترقی کے لئے کام کرتی ہے بلکہ دوسری زبانوں کے علوم و فنون کا بھی اپنی قومی زبان میں ترجمہ کرکے کتابیں مرتب کرتی ہیں۔ اسکے برعکس ہم اردو بولنے والےاور پڑھنے والے کو کم علم، کم تر اور کم درجہ دیتے ہیں۔دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لے کر بتائیں کہ کتنے ممالک میں پرائمری تعلیم غیرملکی زبان میں دی جاتی ہے؟ نیز اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ کیا کسی ملک میں سر کاری اور نجی اور تعلیمی اداروں کے ذریعہ تعلیم میں بھی فرق ہے؟ اگر اسکا جواب نفی میں ہے تو پھر پاکستان کےعوام کوتعلیم کے نام پر تقسیم کیوں کیا گیا؟ دنیا کا کوئی ایک ملک ایسا نہیں جس نے ترقی غیر ملکی زبان سے حاصل کی ہو۔جاپان،چین،جرمنی،فرانس،کوریا،اٹلی،روس،ترکی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک نے بذریعہ اپنی قومی زبان ترقی حاصل کی اورقومی زبان پرہمیشہ فخر کیا۔انگریزی زبان پر عبور ہونے کے باوجود انکے لیڈرز ہمیشہ اپنی زبان میں بات کرنے پر فخر کرتے ہیں۔جبکہ پاکستان میں 72 سال سے انگریزی جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے، سرکاری زبان،عدالتی زبان،تعلیمی زبان،حتی کہ مقابلے کے امتحانات کی زبان سے لے کر ملازمتوں کے حصول کے لئے انٹرویو کی زبان تک انگریزی ہے۔ باوجوداتنی انگریزی مسلط کرنے کےپاکستان نے علم سائنس وٹیکنالوجی میں کتنی ترقی کی ہے؟ اعلی انگریزی میڈیم اداروں کا پیدا کردہ ایک بھی عالمی سائنس دان یا سکالر نہ ہے۔ موجودہ اعلی سطحی افسران،سکالرز اور عالمی سائنس دانوں کی بنیاداردو زریعہ تعلیم تھی، بعد ازاں انگریزی کو بنیادی زریعہ تعلیم بنانے والوں نے اس ملک کونمود و نمائش، اقدار و اخلاق سے عاری، بدعنوان قوم بنادیا ہے ۔
1948 میں قائد اعظم نے ڈھاکہ میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی و دفتری زبان اردو ہو گی۔پاکستان کے آئین کی شق نمبر یعنی دفعہ 251 میں درج ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اسے سرکاری ودیگر مقاصد کےاستعمال کرنے کے لئے آئین کےاجراء کے پندرہ برس کے اندر اندر نافذ کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔ اس دوران شق 1 کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی کو سرکاری مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تاآنکہ اسکو اردو کے ذریعے بدل دینے کے انتظامات کئے جائیں۔ نیز قومی زبان سے کوئی تعصب اختیار کئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی قانون سازی کے ذریعے قومی زبان کے ساتھ ساتھ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، فروغ اور استعمال کے لئے اقدامات تجویز کر سکتی ہے۔1947ء سے 1973ء تک 26 برس ہماری تمام حکومتیں اور سیاستدان یہی سمجھتے رہے کہ اردو ایک غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ زبان ہے۔ اسے ترقی اور فروغ دینے کے لئے مزید پندرہ برس چاہئیں۔ آئین کی رو سے دیکھیں تو 1988ء میں اس زبان کو یعنی اردو کو مکمل طور پر نافذ کر دینا چاہئے تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ آج بھی مقابلے کے امتحانات انگریزی میں ہو رہے ہیں، سائنسی مضامین کی تعلیم انگریزی میں دی جا رہی ہے۔ سرکار خود انگلش میڈیم اسکولوں کے قیام پر زور دے رہی ہے اور جو سرکاری سکولز پہلے سے قائم ہیں انہیں انگلش میڈیم بنایا جا رہا ہے۔ مقابلہ جاتی و محکمانہ امتحانات،این ٹی ایس اور GAT ٹسٹ بھی انگریزی زبان میں ہو رہےہیں۔حالت یہ ہے کہ اپنے نظام تعلیم اور نصاب کے لئے بھی غیر ملکی امدادسمیت غیر ملکی گورے بلائے جاتے ہیں۔کیاکبھی جاپان،روس،چین، کوریا، جرمنی، ڈنمارک ، سویڈن، ترکی وغیرہ نے اپنا سلیبس مرتب کرنے کے لئے امریکیوں اور انگریزوں کو بلایا ؟
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔اسکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے زرائع ابلاغ نےاس اہمیت کوسمجھتے ہوئےبڑے پیمانے پر اپنی اردو سروس جاری کر دی ہوئی ہیں۔اردو زبان قومی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کا باعث بنے گی، اس سے علم و شرح خواندگی بڑھے گی، ہنر مند افراد پیدا ہونگے، روزگار بڑھےگا۔ ہمارے ہاں جس طرح انگریزی کے فروغ اور ترقی کے لئے کام ہوا ہے اگر اردو کے فروغ اور ترقی کے لئے اس طرح سنجیدگی سے کوششیں کی جاتیں تو اس ہر سطح پر لوگوں کے مسائل بھی حل ہو جاتے۔ ہمارے ہاں دفاتر میں انگریزی میں جو نوٹ لکھے جاتے ہیں اسکو عام لوگ بالکل نہیں پڑھ پاتے۔ عدالتی نظام اردو میں ہونا چاہئے تاکہ وہ غریب ومجبور لوگ خود اپنا کیس لڑ سکیں۔چند برس قبل تک قانون کی تعلیمی اردو زبان میں دی جاتی رہی بعد میں اسے ختم کردیا، اس آئینی خلاف ورزی کو فوری ختم کیا جائے اور اردو کے نفاذ کے آئین پر عملدرآمد کرایا جائے۔آئین کا تقاضا ہے کہ قومی زبان اردو کا استعمال روزمرہ زندگی میں کیا جائے ۔ اگر ہم آئین پر عمل نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے۔
طبقاتی درجہ بندی کے خاتمہ کے لئے قومی زبان ضروری ہے، پاکستانی نظام تعلیم کا سب سے سنگین مسئلہ تعلیمی عصبیتُ ہے۔امیروں اور غریبوں کے بچوں کی تعلیم میں ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ زبان اس تقسیم میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پچھلے کئی عشروں سے دیسی لبرل ماڈل ہمارے تعلیمی نظام میں رچ بس گیا ہے اور اب امیروں اور مڈل کلاس کے بچوں کے تعلیمی اداروں میں ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ تعلیم‘ جسکا بنیادی مقصد ہی معاشرے میں معاشرتی اور معاشی امتیازات کو کم کرنا ہے‘ ان امتیازات کو مزید تقویت د ی جا رہی ہے۔سرکاری سکول اب اپنی کشش کھو بیٹھے ہیں۔ والدین اب اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولز میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور وجوہات کے علاوہ اسکی ایک اہم وجہ انگریزی زبان ہے۔ والدین انگریزی زبان کو معیار کا پیمانہ اور کامیابی کا چور راستہ سمجھتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں طالب علم کے گھر اور درسگاہ کی زبان بالعموم ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ سکول میں جس زبان میں بولتا، لکھتا اور پڑھتا ہے،اسی زبان میں سمجھتاہے اور اپنی زبان پر فخر بھی کرتا ہے۔ یہ سہولت فطری طور پر اسے نہ صرف آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ عملی زندگی میں خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا، پیشہ ورانہ امور سرانجام دیتا اور اپنے علم اور تجربے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔ اس طرح پوری قوم کیلئے ترقی کی راہیں آسان اور کشادہ ہوجاتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے میں اگلے سال سے سرکاری سکولز میں پرائمری سطح پر اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کیے جانے کا اعلان کیا ہے،لیکن ضرورت امر کی ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق بیک وقت ہر تعلیمی ادارے پر مستقل بنیادوں پر کیا جائے۔ نیز یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ جب بچوں کی بنیاد اردو میڈیم ہو جائے گی تو پھر یہ سلسلہ بتدریج مڈل، ثانوی، اعلیٰ ثانوی جماعتوں حتیٰ کہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح پیشہ ورانہ تعلیم تک بڑھانا ضروری ہوگا تاکہ طلبہ کو کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے جس سے فی الوقت بہت سے طالب علم دوچار ہیں۔ بہت سے ذہین افراد ذریعہ تعلیم کی وجہ سے سول سروس جیسے امتحانات میں نہیں بیٹھ سکتے اورعملی زندگی میں احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ یہ بات ایک المیہ سے کم نہیں کہ اب تک تین نسلیں اردو، انگریزی کے چکر میں اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر چکی ہیں، اب مزید ایسا نہیں ہونا چاہئے اور پورے ملک میں بلا تخصیص قومی زبان کو رائج کیا جانا چاہئے جو ایک اہم آئینی تقاضا بھی ہے۔تحریک انصاف کا سب سے بڑا نعرہ یکساں نصاب تعلیم اوریکساں نظام تعلیم تھا۔وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں امیروں اور غریبوں کے سکولزکے درمیان جس تفاوت کا ذکر کیا ہے اس میں انگریزی کا کردار سب سے اہم ہے ۔یکساں نصاب اور نظام تعلیم کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک طلباکویکساں زبان کے مسادی مواقع فراہم نہ کیے جائیں!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔